سال 2022 صحافیوں کے لیے بدترین سال ثابت ہوا... سہیل انجم

ہندوستان میں اس وقت سات صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں جن میں پانچ مسلمان ہیں اور ان میں سے چار کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔

میکسکو میں ہلاک کئے گئے 15 صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا منظر / Getty Images
میکسکو میں ہلاک کئے گئے 15 صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا منظر / Getty Images
user

سہیل انجم

گزرنے والا سال یعنی 2022 دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے بدترین سال ثابت ہوا۔ امسال کل 363 صحافیوں کو جیل ہوئی جن میں سے بیشتر اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ امسال صحافیوں کی گرفتاریوں میں گزشتہ سال کے مقابلے میں بیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ رپورٹ صحافیوں کی عالمی تنظیم ”کمیٹی ٹو پروٹکٹ جرنلسٹس“ نے پیش کی ہے۔ اس نے عالمی سطح پر اس کا جائزہ لیا ہے کہ یکم جنوری 2022 سے یکم دسمبر 2022 تک صحافیوں کی کیا صور تحال رہی اور کتنے صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے دیگر کئی ملکوں کے مانند ہندوستان میں بھی صحافیوں کے لیے یہ سال اچھا نہیں گزرا۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ صحافیوں کے ساتھ حکومت اور پولیس کے برتاؤ کے سلسلے میں ہندوستان پر بھی شدید تنقید ہوتی رہی ہے۔ خاص طور پر جموں و کشمیر میں صحافیوں پر انتہائی سخت قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے نفاذ کے سلسلے میں حکومت تنقیدوں کی زد میں رہی ہے۔ ہندوستان میں اس وقت سات صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں جن میں پانچ مسلمان ہیں اور ان میں سے چار کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کشمیر کے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیے جانے والوں کو دو سال تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔


رپورٹ کا کہنا ہے کہ جن چار کشمیری صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا ہے وہ ہیں آصف سلطان، فہد شاہ، سجاد گل اور منان ڈار۔ جبکہ صدیق کپن، گوتم نولکھا اور روپیش کمار بھی جیل میں بند ہیں۔ صدیق کپن کیرالہ کے صحافی ہیں۔ انھیں پانچ اگست 2020 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کی اجتماعی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کی کوریج کے لیے جا رہے تھے۔ وہ ابھی دہلی سے متھرا ہی پہنچے تھے کہ انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے تعلق اور دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا الزام ہے۔ بعد میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر حکومت نے پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی۔

روپیش کمار ایک آزاد صحافی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ماؤ نوازوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرتے تھے۔ ان کو جولائی میں جھارکھنڈ کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ وہ سات برسوں سے آدیواسیوں کے خلاف ہونے والے مبینہ سرکاری مظالم کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ پیگاسس جاسوسی معاملے میں جن صحافیوں کے فون نمبر لیک ہوئے تھے ان میں ان کا بھی فون نمبر تھا۔ گوتم نولکھا ایک صحافی اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ ان سولہ افراد میں شامل ہیں جن پر 2018 میں پونے کے نزدیک بھیما کورے گاؤں میں تشدد برپا کرنے کا الزام ہے۔


وہ 2020 سے ہی جیل میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں بار بار انسانی اور بنیادی سہولتوں سے محروم کیا گیا۔ ان کی بینائی کمزور ہے۔ جیل میں ان کا چشمہ گم ہو گیا تھا۔ ان کی اہلیہ نے ان کو چشمہ بھیجا لیکن انھیں چشمہ لینے کی اجازت نہیں ملی جس پر انھیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا تھا۔ سپریم کورٹ نے انھیں جیل سے نکال کر گھر میں نظربند کر دیا ہے۔ لیکن سی بی آئی ان کی نظربندی کی مخالفت کر رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انھیں دوبارہ جیل میں ڈالا جائے۔ ان پر بھی صدیق کپن کے مانند یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے۔ منان ڈار پر بھی یو اے پی اے لگایا گیا ہے۔

دوسرے ملکوں میں بھی صحافیوں کی حالت بہتر نہیں ہے۔ انھیں حکومت کے مبینہ مظالم کے خلاف لکھنے کی وجہ سے گرفتار کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں تو اب حکومت پر تنقید کرنا بہت دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان صحافی حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتا ہے تو اسے زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہندوستان میں الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ایسے متعدد صحافی ہیں جنھیں ان کی حق گوئی کی وجہ سے ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ تازہ ترین واقعہ رویش کمار کا ہے۔


ایسے بیشتر صحافی اب سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں اور انھوں نے اپنے یو ٹیوب چینل بنا لیے ہیں جن پر وہ اپنی بات کہتے اور سیاسی و سماجی واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ایسے صحافیوں میں غیر مسلموں کی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم ان کو کام کرنے کی آزادی ملی ہوئی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جس طرح وہ لوگ حکومت پر سخت تنقید کرتے ہیں اگر کوئی مسلم صحافی کرے تو اسے دو دن کے اندر جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ تاہم یہی کیا کم ہے کہ غیر مسلم صحافیوں کو اپنے یو ٹیوب چینل سے اپنی بات کہنے کی آزادی حاصل ہے۔ حالانکہ حکومت کہتی ہے کہ وہ پریس کی آزادی کی حامی ہے اور وہ اس پر کسی بھی قسم کی پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہے لیکن مبصرین کے مطابق عملی طور پر حقیقی صحافیوں کے لیے کام کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا دراصل مین اسٹریم میڈیا کے ایک بڑے متبادل کے طور پر ابھرا ہے۔ جو باتیں مین اسٹریم میڈیا پر جسے رویش کمار نے گودی میڈیا نام دیا ہے، نہیں آپاتیں وہ سوشل میڈیا پر آتی ہیں اور جن سرکاری فیصلوں یا پالیسیوں پر مین اسٹیم میڈیا میں بحث نہیں ہوتی ان پر سوشل میڈیا میں بحث ہوتی ہے۔ اسی لیے حکومت سوشل میڈیا سے پریشان ہے۔ وہ سوشل میڈیا کی طاقت سے واقف ہے اس لیے وہ اس پر قدغن لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ حکومت سوشل میڈیا کو قابو میں کرنے کے لیے قانون سازی کرنے جا رہی ہے۔


بہرحال جن صحافیوں کو غیر جانبداری سے اپنا کام کرنا ہے وہ تو کریں گے ہی خواہ حکومت کتنا ہی سخت قانون کیوں نہ بنا ڈالے۔ حقیقی صحافی ہمیشہ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ نہ تو قانون سازی انھیں اپنی با ت کہنے سے روک پائے گی اور نہ ہی وہ گرفتاریوں سے ڈرنے والے ہیں۔ یہ جرآت صرف ہندوستان کے صحافیوں میں نہیں ہے بلکہ دوسرے ملکوں کے صحافیوں میں بھی ہے۔ دوسرے ملکوں میں بھی ایسے جانے کتنے صحافی ہیں جو قید و بند سے خوف زدہ ہوئے بغیر اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں یقین رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے خواہ حکومت کچھ بھی کر لے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔