تبلیغی جماعت کے خلاف فرضی خبر معاملہ میں مرکز اور پریس کونسل کو سپریم کورٹ کا نوٹس
سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کر کے مرکزی حکومت سے پوچھا ہے کہ فرضی خبروں کی نشریات کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف کیا کارروائی کی جا سکتی ہے! معاملہ کو ایک مرتبہ پھر سے ملتوی کر دیا گیا
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز تبلیغی جماعت کے خلاف پھیلائی گئی فرضی خبروں کے معاملہ میں مرکزی حکومت اور پی سی آئی (پریس کونسل آف انڈیا) سے جواب طلب کیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کی گئی اس عرضی کے توسط سے درخواست کی گئی ہے کہ تبلیغی جماعت کو فرضی خبروں کے ذریعے ہندوستان میں کورونا وائرس پھیلانے کا مورد الزام ٹھہرائے جانے کے خلاف مرکزی حکومت کو ہدایت جاری کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں : ’کورونا 2021 تک جانے والا نہیں‘
چیف جسٹس شرد اے بوبڈے کی صدارت والی بنچ نے پی سی آئی اور مرکز سے پوچھا ہے کہ کیبل ٹیلی ویزن نیٹورک ایکٹ 1995 کی دفعہ 19 اور 20 کے تحت میڈیا چینلوں کے خلاف کیا کارروائی کی جا سکتی ہے۔ جمعیۃ علما ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول اور ایڈوکیٹ آکرتی چوبے کے ہمراہ معاملہ میں دلائل پیش کیں۔
دشینت دوے نے کہا کہ عرضی میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ اقلیتی حقوق کے لحاظ سے کافی سنجیدہ ہیں۔ اس پر چیف جسٹس بوبڈے نے کہا کہ چونکہ معاملہ کی سپریم کورٹ میں سماعت کی جا رہی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ عدلیہ ہر طرح کی سنجیدگی کا خیال رکھتی ہے۔ معاملہ کو دو ہفتوں کے لئے ملتوی کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ملک کے کئی میڈیا گھرانوں کی طرف سے مرکز نظام الدین پر کورونا وائرس وبا کو پھیلانے کا الزام عائد کرنے کے خلاف جمعیۃ علما ہند کے شعبۂ قانون کے سکریٹری گلزار احمد اعظمی نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ بدھ کی سماعت کے بعد صدر جمعیۃ علما ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا ’’متعصب میڈیا کے خلاف ہماری جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ان پر لگام نہ لگائی جائے۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاملہ میں جیت ہماری ہوگی کیونکہ یہ معاملہ محض ہندو-مسلم کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے اتحاد اور مذہبی ہم آہنگی کا معاملہ ہے۔‘‘
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کی آج کی پیشرفت کو ہم مثبت مانتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمیں عدالت عظمیٰ سے ایک مرتبہ پھر انصاف ملے گا۔ ارشد مدنی نے مزید کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے آج کوئی حکم جاری نہیں کیا ہے، تاہم عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا ہے کہ میڈیا گھرانوں پر کیا کارروائی کی جا سکتی ہے، انصاف کے لیے کی جا رہی جد و جہد کی راہ میں یہ ایک مثبت علامت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔