’کورونا 2021 تک جانے والا نہیں‘

راہل گاندھی کے یہ پوچھنے پر کہ لاک ڈاؤن کا کورونا پر کیا اثر پڑے گا، پروفیسر آشیش جھا نے کہا کہ اس سے صرف وائرس کے پھیلنے کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: ماہر صحت کا خیال ہے کہ وبا کے دور میں داخل ہو رہی دنیا سے کورونا 2021 تک جانے والا نہیں ہے اور لاک ڈاؤن صرف اس کا پھیلاؤ روکتا ہے جس میں آہستہ آہستہ نرمی کرکے ٹیسٹنگ بڑھانے اور اس کی دوا بننے تک لوگوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے ماہر صحت اور ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آشیش جھا اور سویڈن میں عوامی صحت کے ماہر پروفیسر جوہان گسیكے سے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے کورونا بحران سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں یہ اطلاع دی۔ راہل گاندھی نے اس سے قبل کورونا سے معیشت کو پہنچنے والے نقصان اور ہندوستان کے اس سمت میں اٹھائے گئے اقدامات کے تناظر میں ماہر اقتصادیات رگھو رام راجن اور نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی سے بات چیت کی تھی۔

راہل گاندھی کے یہ پوچھنے پر کہ لاک ڈاؤن کا کورونا پر کیا اثر پڑے گا، پروفیسر جھا نے کہا کہ اس سے صرف اس وائرکے پھیلنے کی رفتار کو کم کی جا سکتی ہے۔ لاک ڈاؤن کا پھیلاؤ روکنے اور اس سے لڑنے کی صلاحیت کو بڑھانے کا وقت دیتا ہے۔ وائرس كو روکنا ہے تو اس سے متاثر ہونے والوں کو سماج سے الگ کرنا ہوگا اور ایسا جانچ سے ہی ممکن ہوگا۔ لاک ڈاؤن سے معیشت کے محاذ پر بہت بڑی چوٹ پہنچتی ہے لہذا اس وقت کا استعمال صلاحیت بڑھانے کے لئے نہیں کیا گیا تو یہ بات کافی نقصان دہ ثابت ہوگی۔


لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کے بحران کے بارے میں پوچھے گئے راہل گاندھی کے سوال پر پروفیسر جھا نے کہا ’’کوروناوائرس ایک دو مہینے میں جانے والا نہیں ہے، یہ 2021 تک رہنے والا ہے۔ یومیہ کمانے والے مزدوروں کے پاس مدد پہنچانے کی ضرورت ہے، تاکہ انہیں یقین رہے کہ کل سب کچھ اچھا ہو جائے گا۔ لاک ڈاؤن سے کیا نقصان ہوگا اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے، لیکن آپ نقصان کو کم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں‘‘۔ راہل گاندھی نے جب ہندی میں سوال کیا ’بھیا یہ بتائیے کہ ویکسین کب تک آئے گی‘ تو پروفیسر جھا نے بھی اس سوال کا ہندی میں جواب دیا اور کہا ’’دو تین ویکسین ہیں جو کام کر سکتی ہیں۔ اس میں ایک امریکہ کی ہے، ایک چین کی ہے، ایک آکسفورڈ کی ہے۔ ابھی پتہ نہیں کون سی مفید ثابت ہوگی۔ ہو سکتا ہے تینوں کام نہ کریں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تینوں کام کر جائیں۔ مجھے یقین ہے کہ کورونا کی دوا اگلے سال تک کہیں نہ کہیں سے آ جائے گی‘‘۔

پروفیسر جھا نے کہا کہ ابھی تو صرف کورونا ہی ہے، آنے والے وقت میں دنیا میں انسان کے لئے پریشانیوں میں کافی اضافہ ہونے ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی خوشی کے لئے فطرت میں زبردست مداخلت شروع کر دی ہے اور جہاں جنگلی حیات رہنا چاہیے ان جگہوں پر انسان نے بستیاں بنا لی ہیں۔ جنگلی جانوروں میں کئی طرح کے وائرس ہیں جو ان کے علاقے میں موجود ہیں، وہ سب کے سب وائرس انسانوں پر حملہ کریں گے۔ پرندوں اور جانوروں کے وائرس انسان میں داخل ہوں گے تو وہ وبا کی صورتحال اختیار کریں گے۔


انہوں نے کہا کہ کورونا بحران کے درمیان لاک ڈاؤن کے تعلق سے کئی طرح کے خیالات سامنے آ رہے ہیں لیکن ان سب کے درمیان یہ سمجھنا ضروری ہے کہ لاک ڈاؤن سے صرف وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر وائرس کو روکنا ہے تو متاثرین کو سماج سے الگ رکھنا ہوگا۔ اس کے لئے ٹیسٹنگ ضروری ہے۔ لاک ڈاؤن سے اگرچہ وائرس نہیں رکتا لیکن یہ آپ کو اپنی صلاحیت میں اضافہ اور تیاریوں کے لئے وقت دیتا ہے۔ لاک ڈاؤن سے معیشت کو بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ ایسے میں اگر لاک ڈاؤن کا استعمال اپنی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے نہیں کیا گیا، تو اس سے بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔

پروفیسر جوہان نے بھی کہا کہ لاک ڈاؤن کورونا کا حل نہیں ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں انہوں نے کہا ’’ہندوستان کو جتنی ہو سکے، اتنی زیادہ لاک ڈاؤن میں نرمی دینی چاہیے۔ لاک ڈاؤن کو آہستہ آہستہ ہٹا دیجیے اور صرف بزرگ وں کا خیال رکھیے۔ باقی آبادی کو باہر جانے دیجئے، کیونکہ کوئی نوجوان اگر کورونا کی زد میں آتا ہے، تو وہ جلد ٹھیک ہو سکتا ہے‘‘۔ انہوں نے سویڈن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’سویڈن میں ہم نے پہلے ملک کو پورا لاک ڈاؤن کر دیا، لیکن اب ہم نے آہستہ آہستہ یہ پابندیاں ہٹا دی ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ رکھنے سے معیشت پر کافی گہرا اثر پڑے گا۔ میرا خیال ہے کہ ابھی کسی ملک کے پاس بھی لاک ڈاؤن سے باہر نکلنے کی حکمت عملی نہیں ہے لیکن ہر کسی کو اس سے باہر آنے پر غور کرنا ہوگا۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مرحلہ وار طریقے سے اس سے نمٹا جائے۔ اس میں سب سے پہلے ایک ڈھیل دیں، اس کی جانچ کریں۔ اگر معاملہ بگڑتا ہے تو قدم پیچھے ہٹا لیں‘‘۔


مشترکہ خاندان کے درمیان کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لئے زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دونوں ماہرین نے کہا کہ جن گھروں میں پورا خاندان ایک ساتھ رہتا ہے وہاں خطرہ زیادہ ہے۔ انہوں نے نیو یارک کی مثال دی اور کہا کہ وہاں دیکھا گیا ہے کہ جن گھروں کے نوجوان زیادہ باہر نکلتے تھے تو ان کے گھر لوٹنے پر گھر کے بزرگ خطرے میں آ جاتے ہیں۔ ہندوستان میں اس صورت حال سے بچنے کے لئے ٹیسٹنگ میں اور زیادہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے ہی کورونا مریضوں کی شناخت ممکن ہوسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ جانچ میں اضافہ نہ کیا گیا تو یہ بیماری پھیلے گی۔ انہوں نے تائیوان-جنوبی کوریا جیسے ممالک کی مثال دی اور کہا کہ ایشیا کے ان ممالک نے ٹیسٹنگ کے معاملے میں بہترین کام کیا ہے اور انہیں اس کا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ کورونا کو روکنے کے لئے زیادہ ٹیسٹ ضروری ہیں اور اس کے بعد ایسے علاقوں کی شناخت کرنی ہوگی جہاں پر متاثریں تعداد زیادہ ہے۔ اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسپتال آنے والے ہر شخص کی ٹیسٹنگ ضروری ہے۔ طبی اہلکاروں میں ٹیسٹنگ کے تئیں جارحانہ رخ اپنانا ضروری ہے۔


جھا نے کہا کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے۔ ان باتوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس وبا کا صحت پر برا اثر تو پڑتا ہی ہے، اس کے علاوہ اس کا بہت بڑا اقتصادی نقصان ہوتا ہے اور نفسیاتی طور پر بھی اثر پڑتا ہے۔ پروفیسر جوہان نے ہندوستان کو سافٹ لاک ڈاؤن اختیارکرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اگر اس میں سختی برتی گئی تو معیشت کو بھاری نقصان ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔