کانگریس صدر کا الیکشن پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے تھا، نہ کہ تقسیم کرنے کے لیے: ششی تھرور

کانگریس صدر کے انتخاب کا نتیجہ آنے کے بعد ششی تھرور نے ٹوئٹ کر کہا کہ کانگریس صدر کا عہدہ بہت ہی ذمہ داری والا عہدہ ہے اور میں ملکارجن کھڑگے جی کو کامیابی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

تصویر ٹوئٹر@ShashiTharoor
تصویر ٹوئٹر@ShashiTharoor
user

قومی آواز بیورو

کانگریس صدر عہدہ کے لیے ہوئے انتخاب کے نتائج کا اعلان ہونے سے پہلے ہی سینئر کانگریس لیڈر ششی تھرور نے ملکارجن کھڑگے کو ان کے منتخب ہونے کی مبارکباد دے دی تھی۔ اتنا ہی نہیں، ششی تھرور نے تو کھڑگے کو ان کے گھر جا کر مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے ایک ٹوئٹ بھی کیا جس میں لکھا کہ ’’کانگریس صدر کا عہدہ بہت ہی ذمہ داری والا عہدہ ہے اور میں کھڑگے جی کو کامیابی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘

اس سے قبل جب میڈیا نے ان خبروں کو چلانا شروع کیا جس میں ششی تھرور کی ٹیم کی طرف سے ووٹنگ کے دوران مبینہ بے ضابطگیوں کا الزام لگایا گیا تھا، تو تھرور نے خود ہی اس پر صفائی دی۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ مرکزی الیکٹورل افسر کے ساتھ ہوئی اندرونی خط و کتابت میڈیا میں لیک ہو گئی۔ مجھے امید ہے کہ سلمان سوز نے اس سلسلے میں جو وضاحت دی ہے، اس کے بعد کوئی تنازعہ نہیں رہ جاتا۔ یہ انتخاب کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے تھا، نہ کہ اسے تقسیم کرنے کے لیے۔ ہم سب کو پرانی باتیں چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے۔‘‘


ششی تھرور نے اپنے ٹوئٹ میں اس وضاحت کا تذکرہ بھی کیا جو سلمان سوز نے جاری کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ’’اتر پردیش ٹیم کے ذریعہ کل ملی شکایتوں کی بنیاد پر پارٹی کے سنٹرل الیکشن دفتر کو ایک خط لکھا گیا ہے۔ اس کے بعد ہوئی بات چیت میں انتخاب دفتر نے معاملے کی غیر جانبدارانہ جانچ کرانے کی بات کہی ہے۔ ہم اس کے بعد اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ ووٹوں کی گنتی جاری رہنی چاہیے اور ہم نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ نیوز ایجنسی اے این آئی نے بدھ کی صبح پانچ صفحات کا ایک خط جاری کیا تھا جس پر سلمان سوز کا دستخط تھا۔ اسی ضمن میں مرکزی الیکٹورل افسر مدھوسودن مستری سے صحافیوں نے کئی طرح کے سوالات پوچھے۔ ان سوالوں کے جواب میں مستری نے کسی بھی قسم کی بے ضابطگی سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس بارے میں سنٹرل الیکشن دفتر نے جواب سلمان سوز کو بھیج دیا ہے۔ انھوں نے اس بات کا انکشاف نہیں کیا کہ جواب میں کیا لکھا گیا ہے۔ مدھوسودن مستری نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر انھوں نے اندرونی خط کو افشا کر دیا تو ہم بھی ایسا کریں۔


میڈیا کے بار بار سوال پوچھنے پر مستری نے اعتراف کیا کہ لکھنؤ سے آئے 6 میں سے 2 باکس کو لے کر شکایت تھی۔ انھوں نے بتایا کہ سبھی باکس سیل بند تھیں، لیکن دو باکس کے ٹیگ نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ لکھنؤ کے پولنگ افسر کو ووٹ شماری کے دوران موجود رہنے کو کہا گیا اور بتایا گیا کہ وہ اس دوران امیدواروں کے ایجنٹ کو حالات سے واقف کریں۔ اس کے علاوہ انتخاب کو لے کر کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی۔ مستری نے کہا کہ اگر ان دو مبینہ طور پر متنازعہ باکس کو ہٹا بھی دیا جائے تو نتائج پر کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ ووٹ شماری کے دوران 400 سے زائد ووٹوں کو ناقابل شمار قرار دیا گیا۔ ان میں سے کچھ ووٹ کے باکس پر نمائندوں کے دستخط تھے، اس لیے انھیں خارج کر دیا گیا۔ کچھ نمائندوں نے بیلٹ پیپر پر راہل گاندھی کا نام لکھ دیا تھا، انھیں بھی خارج کر دیا گیا۔


یہ پوچھنے پر کہ ریاست وار ووٹوں کی گنتی کیوں نہیں کی گئی اور ریاست وار نتائج کیوں نہیں بتائے گئے، مدھوسودن مستری نے کہا کہ سبھی ووٹوں کو ملا کر شمار کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ ووٹنگ میں کسی بھی نمائندہ کی منشا یا رویہ کا پتہ نہ لگ سے۔ ایسا اس لیے کیونکہ ریاست وار ووٹ شماری ہونے اور نتائج کے اعلان سے نمائندوں کے ووٹ کے بارے میں اندازہ لگ سکتا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔