کیا گودی میڈیا کے نیوز اینکر نابینا ہو گئے ہیں؟... سہیل انجم
سوال یہ ہے کہ کیا اب گودی میڈیا کے شرانگیز نیوز اینکر اور وزارت صحت کے ذمہ داران تبلیغی جماعت کے لوگوں سے معافی مانگیں گے یا اپنی بے غیرتی و بے حیائی کا اسی طرح مظاہرہ کرتے رہیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ گودی میڈیا کے تمام نیوز اینکر نابینا ہو گئے ہیں۔ یا پھر ان کے اندر ایک مخصوص پرندے کی خصوصیات پیدا ہو گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں دن کے اجالے میں بھی دکھائی دینا بند ہو گیا ہے۔ حالانکہ ابھی ایک سال قبل تو وہ سب ٹھیک ٹھاک تھے۔ انھیں سجھائی بھی دے رہا تھا اور دکھائی بھی دے رہا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ انھیں سامنے کی چیزیں نظر آرہی تھیں بلکہ ان کی بینائی اس قدر روشن تھی کہ وہ سات پردے میں نہاں چیزیں بھی دیکھ لیتے تھے۔ یہاں تک کہ جس چیز کا وجود نہیں تھا وہ بھی انھیں صاف صاف نظر آرہی تھی۔
لیکن حیرت ہے کہ اتنی کم مدت میں ان سب کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں اور انھیں نہ تو کچھ سجھائی دے رہا ہے اور نہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔ پردے میں چھپی چیزیں تو چھوڑیے بالکل سامنے کے مناظر بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ پہلے تو کسی دور دراز کی مسجد میں بھی دو ایک لوگ بیٹھے مل جاتے تھے تو وہ سمجھ جاتے تھے کہ وہ چھپے ہوئے ہیں اور وہیں سے پورے ملک میں کورونا پھیلا رہے ہیں۔ وہ صاف دیکھ لیتے تھے کہ وہ کورونا بم ہیں اور مسجدوں میں چھپ کر کورونا جہاد چلا رہے ہیں۔ اگر کوئی داڑھی ٹوپی اور کرتا پائجامہ والا نظر آجاتا تھا تو وہ فوراً پہچان لیتے تھے کہ وہ انسانی بم ہے اور اس بم کو ناکارہ بنانا انتہائی ضروری ہے۔
وہ ان کے کپڑوں سے اس لیے انھیں پہچان لیتے تھے کہ ان کے آقا نے ایک فارمولہ بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ جو لوگ آگ لگا رہے ہیں انھیں تو ان کے کپڑوں سے ہی پہچانا جا سکتا ہے۔ پھر کیا تھا لگے گودی میڈیا کے اینکر اور رپورٹر انھیں ان کے کپڑوں سے پہچاننے۔ حالانکہ ایسے تمام لوگوں کے کپڑے ایک جیسے تو نہیں ہوتے لیکن چونکہ انھیں خفیہ پیغام کے ذریعے شناخت بتا دی گئی تھی اس لیے ان کے سامنے کوئی دشواری نہیں تھی۔
لیکن ہری دوار کے کمبھ میلے میں پہنچنے والے لاکھوں لوگ بلکہ اب تو ان کی تعداد کروڑوں میں ہو گئی ہے، انھیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ حالانکہ سبھی ایک جیسے لباس میں ہوتے ہیں اور ان کی شکل و شباہت بھی تقریباً ایک جیسی ہی ہے۔ بلکہ بہت سے لوگ تو لباسِ بے لباسی زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ حیرت ہے کہ اتنا بڑا مجمع بھی ان کی روشن نگاہیں نہیں دیکھ پا رہی ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو کسی بہترین آئی اسپیشلسٹ یا آئی سرجن سے رابطہ قائم کرنا چاہیے اور یہ پوچھنا چاہیے کہ انھیں یہ لاکھوں کروڑوں لوگ کیوں نظر نہیں آرہے ہیں۔ صرف گودی میڈیا کے اینکر ہی نابینا نہیں ہوئے ہیں بلکہ لگتا ہے کہ مرکزی وزارت صحت کے اہلکاروں کی بینائی بھی چھن گئی ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ گزشتہ سال مارچ میں حضرت نظام الدین کے علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں ایک بڑا اجتماع تھا جس میں ملک و بیرون ملک کے تقریباً چار ہزار افراد اکٹھا تھے۔ ان میں غالباً دو ہزار غیر ملکی بھی تھے۔ اسی درمیان کورونا کے کیسیز بڑھنے لگے اور حکومت نے صحت ایمرجنسی نافذ کر دی۔ اس کے بعد ہی وزیر اعظم نے ایک دن کا جنتا کرفیو لگا دیا اور پھر 21 دن کے لاک ڈاون کا اعلان کر دیا۔ مرکز میں جو لوگ تھے وہ وہیں پھنس کر رہ گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک ایک تبلیغی کو وہاں سے نکالا گیا اور نیوز چینلوں کے کیمرے ان کا پیچھا کرتے رہے۔
وہ جہاں جہاں لے جائے جاتے کیمرے ان کے پیچھے پیچھے ہوتے اور پورا گودی میڈیا یہ شور اٹھانے میں لگا رہا کہ تبلیغی جماعت کے مرکز سے کورونا پھیلایا جا رہا ہے۔ ان کو کورونا بم کہا گیا اور جانے کن کن ناموں سے انھیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ جن لوگوں کو اسپتالوں میں داخل کیا گیا ان کے بارے میں نرسوں کے ساتھ بد تمیزی کی فرضی کہانیاں گھڑ گھڑ کر سنائی گئیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ غیر ملکیوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا گیا اور ان پر کورونا گائڈ لائن اور ویزا قوانین کی خلاف ورزی کے مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ لیکن یہ الزامات عدالتوں میں نہیں ٹھہر سکے اور تمام مقدمات خارج کر دیئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت اور گودی میڈیا کو خوب پھٹکار بھی لگائی گئی۔
لیکن اب جبکہ کمبھ میلے میں لاکھوں لوگ دریائے گنگا میں اشنان کر رہے ہیں اور روزانہ سیکڑوں لوگ کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں تو ان کی خبر ایک بھی نیوز چینل نہیں چلا رہا ہے۔ البتہ اتراکھنڈ حکومت کے اس بیان کی حمایت کی جا رہی ہے کہ یہ آستھا کا معاملہ ہے اور آستھا کورونا پر بھاری ہے۔ ان دھارمک لوگوں کا کورونا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا اور گنگا میا کورونا کو پراست کر دیں گی۔ گنگا جل کورونا کا علاج بن جائے گا۔ لیکن جو سمجھدار لوگ ہیں جو سائنسی ذہن رکھتے ہیں وہ وارننگ دے رہے ہیں کہ کورونا آستھا نہیں دیکھتا۔ وہ مذہب کا پابند نہیں ہے۔ اور پھر اگر ان کی آستھا ہے تو تبلیغیوں کی آستھا کیوں نہیں ہے۔ وہ بھی تو ایک آستھا کے تحت ہی مرکز میں جمع ہوئے تھے۔
اب یہ کہا جا رہا ہے کہ مرکز ایک بند جگہ ہے اس لیے وہاں کورونا کا زیادہ خطرہ تھا جبکہ کمبھ میلہ ایک کھلی ہوئی جگہ پر ہو رہا ہے اس لیے وہاں اس کا اثر کم ہوگا۔ حالانکہ اب یہ خبر بھی آگئی ہے کہ گنگا کے پانی کے بہاؤ سے کورونا کے پھیلنے کا زیادہ خطرہ ہے۔ تبلیغی جماعت کا جب معاملہ سامنے آیا تھا تو اس وقت تک اس مرض کی پوری حقیقت سامنے نہیں آئی تھی۔ قوانین و ضوابط نہیں بنے تھے۔ اس کی سنگینی کا لوگوں کو اندازہ نہیں تھا۔ لیکن اب تو اس کی سنگینی کا اندازہ ہو گیا ہے۔ اب تو بہت سے ضابطے بن گئے ہیں۔ اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کورونا سے اب تک ہندوستان میں تقریباً پونے دو لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود آستھا آستھا کی رٹ لگائی جا رہی ہے۔
کہاں گئے نیوز چینلوں کے اسٹوڈیو میں گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخنے والے اینکر اور کہاں گئے ان کے رپورٹر جو تبلیغیوں کو مجرم کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ بعض بھاجپائی لیڈروں نے تو ان کو گولی سے اڑا دینے تک کا مشورہ دے دیا تھا۔ کہاں گئے وہ لو اگروال جو روزانہ صبح صبح یہ بتاتے تھے کہ آج کورونا کے اتنے مریض پائے گئے ہیں اور ان میں سے اتنے فیصد تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب وہ کیوں سامنے آکر یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ جو روزانہ دو لاکھ سے زائد مریض پائے جا رہے ہیں ان میں کمبھ میلے میں پائے جانے والوں کا فیصد اتنا ہے۔
حالانکہ کمبھ میں شرکت کرنے والے کئی سادھووں کو بھی کورونا ہو گیا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کو ہو گیا۔ اکھلیش یادو کو ہو گیا۔ دوسرے بہت سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگوں کو ہو گیا۔ جو کہتے تھے کہ گنگا میا کورونا کو بھگا دیں گی انھیں بھی ہو گیا۔ تو اب کیوں نہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ کمبھ میلے میں شرکت کرنے والوں کی وجہ سے کورونا پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ حالانکہ ایک اکھاڑے کے شنکرآچاریہ نے زمینی حقیقت اور معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے کمبھ سے چلے جانے کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے اکھاڑے کے لوگ اب اشنان نہیں کریں گے۔
لیکن وہیں دوسرے اکھاڑے کے سادھووں اور مہاتماؤں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ نہیں جائیں گے۔ اب وہ بھی یہی بات کہہ رہے ہیں جو تبلیغی جماعت کے بعض ممبران نے کہی تھی کہ موت آنی ہوگی تو مسجد میں آجائے گی۔ اسی طرح شنکرآچاریہ بھی کہہ رہے ہیں کہ موت تو آنی ہے آجائے گی لیکن ہم اپنی پرمپرا کیوں توڑیں۔ ہم نصف مئی تک کمبھ میں رہیں گے یہاں سے نہیں جائیں گے۔ حالانکہ مرکز کے لوگ ایک عمارت کے اندر تھے وہ باہر نکل کر کورونا نہیں پھیلا رہے تھے جبکہ یہ تمام لوگ تو نہا نہا کے جا رہے ہیں اور چاروں طرف پھیل رہے ہیں تو کیا ان سے کورونا کے پھیلنے کا خطرہ نہیں ہے۔
ریاسی حکومت کی جانب سے عوام کے لیے تو یہ اعلان کرد یا گیا ہے کہ بسوں میں آدھی تعداد میں لوگ بیٹھیں گے۔ عام جگہوں پر زیادہ لوگ اکٹھا نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ اعلان کمبھ پر لاگو نہیں ہوگا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی صدر اور متعدد مرکزی وزرا بنگال میں گھوم گھوم کر پرچار کر رہے ہیں۔ روڈ شو نکال رہے ہیں۔ جہاں ہزاروں کی بھیڑ بغیر ماسک اور بغیر سماجی فاصلے کے موجود رہتی ہے۔ وہاں کورونا نہیں پھیل رہا ہے۔ قواعد و ضوابط صرف غریبوں اور عوام کے لیے ہیں۔ ان نیتاؤں کے لیے نہیں ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ بنگال کا پرچار ختم ہوتے ہی مودی اور شاہ کو معلوم ہو جائے گا کہ ملک میں کورونا بم پھوٹ پڑا ہے اور اب کووڈ گائڈ لائن کی پابندی کی جانی چاہیے۔ منافقت کا مظاہرہ گودی میڈیا بھی کر رہا ہے اور ہمارے نیتا لوگ بھی کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب گودی میڈیا کے شرانگیز نیوز اینکر اور وزارت صحت کے ذمہ داران تبلیغی جماعت کے لوگوں سے معافی مانگیں گے یا اپنی بے غیرتی و بے حیائی کا اسی طرح مظاہرہ کرتے رہیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Apr 2021, 9:11 PM