الیکٹورل بانڈ: کارپوریٹ اور سیاسی لیڈران کے درمیان سانٹھ گانٹھ کی ایس آئی ٹی جانچ کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں عرضی داخل

عرضی میں افسران کو شیل کمپنیوں اور خسارے میں چل رہی کمپنیوں کی طرف سے مختلف سیاسی پارٹیوں کو ملنے والی فنڈنگ کے ذرائع کی جانچ کرنے کا حکم دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، سوشل میڈیا</p></div>

علامتی تصویر، سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

الیکٹورل بانڈ سے متعلق تفصیلات سامنے آنے کے بعد لوگوں کے ذہن میں کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں اور کئی کمپنیاں تو کٹہرے میں کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس درمیان کارپوریٹ اور سیاسی لیڈران کے درمیان سانٹھ گانٹھ سے متعلق ایس آئی ٹی جانچ کرانے کا مطالبہ کرتی ہوئی ایک عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے۔ اس عرضی میں الیکٹورل بانڈس سے متعلق کارپوریٹس اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان یکسر تعلقات کی مبینہ مثالوں کی جانچ ایس آئی ٹی سے کرانے کا حکم دینے کی گزارش کی گئی ہے۔

عدالت عظمیٰ میں داخل اس عرضی میں افسران کو شیل کمپنیوں اور خسارہ میں چل رہی کمپنیوں کی جانب سے مختلف سیاسی پارٹیوں کو ملنے والی فنڈنگ کے ذرائع کی جانچ کا حکم دینے سے متعلق مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ الیکٹورل بانڈ ڈاٹا کے ذریعہ جن باتوں کا انکشاف کیا گیا ہے، ان کی تفصیلی جانچ کرائی جانی چاہیے۔ ساتھ ہی اس عرضی میں کہا گیا ہے کہ اگر جانچ میں یہ پتہ چلے کہ کمپنیوں کی طرف سے سیاسی پارٹیوں کو دی گئی رقم جرم کے ذریعہ حاصل کی گئی ہے تو اسے مختلف پارٹیوں سے وصولی کی ہدایت بھی افسران کو دی جانی چاہیے۔


واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے بعد ایس بی آئی نے الیکٹورل بانڈس سے متعلق جو ڈاٹا جاری کیا ہے، اس سے ظاہر ہوا ہے کہ سب سے زیادہ چندہ بی جے پی کو حاصل ہوا ہے۔ لیکن تشویش کا اظہار اس بات پر نہیں ہوا ہے کہ بی جے پی کو چندہ زیادہ ملا ہے، بلکہ سوال اس بات کو لے کر اٹھ رہے ہیں کہ کئی کمپنیوں پر ای ڈی یا سی بی آئی جیسی سرکاری ایجنسیوں کی کارروائی ہوئی اور اس کے بعد متعلقہ کمپنی نے الیکٹورل بانڈ سے چندہ دیا، پھر اس کمپنی پر کارروائی بند ہو گئی۔ ایسی کئی میڈیا رپورٹس سامنے آئی ہیں جس میں ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اپنے خلاف کارروائی سے بچنے کے لیے کسی کمپنی نے برسراقتدار پارٹی کو چندہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور اس کے لیڈران الیکٹورل بانڈ کو بی جے پی کی ’ہفتہ وصولی‘ قرار دے رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔