لوک سبھا انتخابات: آپ اپنی رغبت اور نفرت کی بنیاد پر ووٹ نہ کریں
پہلے دور کے انتخابات ہو چکے ہیں اور دوسرے مرحلہ کے لئے عوام نے اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے اور اگر انہوں نے اپنے بنیادی مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ووٹ کیا تو ملک اور ان کے لئے بہتر ہے
’میں یہ کہنے آیا ہوں کہ یہ آ پ کا منگل سوتر بھی نہیں بچنے دیں گے‘ یہ بات وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی خطاب میں کہی۔ کانگریس اور مسلمانوں پر سیدھا حملہ کیا جس کو لے کر کانگریس نے انتخابی کمیشن سے شکایت بھی کی۔ ادھر کانگریس اپنے انتخابی جلسوں میں یہ بات دہرا رہی کہ اگر بی جے پی واپس اقتدار میں آتی ہے تو یہ آخری انتخابات ہوں گے اور امبیڈکر کا تیارکردہ آئین تبدیل کر دیا جائے گا۔ یعنی دونوں اتحادوں کے قائدین کی الگ الگ پچ ہے اور دونوں کی کوشش ہے کہ وہ ایک دوسرے کی پچ پر نہ جائیں لیکن جواب دینے کے لئے جانا پڑ رہا ہے۔
وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ بار بار اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ اگر امبیڈکر خود بھی آ جائیں تو آئین نہیں بدلا جا سکتا۔ ایسے ہی منگل سوتر کے بیان پر پرینکا گاندھی نے جہاں اپنی تقریر میں کہا کہ ’میری ماں کا منگل سوتر اس ملک پر قربان ہوا ہے اور پی ایم مودی کہہ رہے ہیں کہ کانگریس پارٹی آپ کا منگل سوتر اور سونا چھین لے گی! ملک میں 55 سال تک کانگریس کی حکومت رہی ہے، کسی نے آپ سے آپ کا سونا اور منگل سوتر چھینا؟ اندرا گاندھی جی نے جنگ میں اپنا سونا ملک کو دیا تھا۔‘‘ کانگریس کا ایک وفد انتخابی کمیشن سے شکایت کرنے بھی گیا یعنی دونوں نا چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے پچ پر کھیلنے کے لئے جا رہے ہیں۔
جہاں بی جے پی کے کور ووٹر کی اکثریت اعلیٰ ذات لوگ ہیں وہیں کانگریس کی کوشش ہے کہ وہ اکثریتی طبقہ کے دلت اور پسماندہ طبقات کو اپنی طرف راغب کر لیں اور ان کو یہ امید ہے کہ اقلیتی طبقہ کے ووٹوں کے ساتھ اگر اس طبقہ کا ووٹ بھی جڑ جائے تو اس کی بلے بلے ہو جائے۔ کانگریس کے انتخابات نہ کرانے اور آئین بدلنے کے مدے عوام تک پہنچ گئے ہیں جس کا احساس بی جے پی کو ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی کی قیادت کو اس کا جواب دینا پڑ رہا ہے اور گزشتہ 10 سالوں میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ بی جے پی کو کانگریس کی پچ پر آ کر کھیلنا پڑ رہا ہو۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ ان مدوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور شاید اسی لئے منگل سوتر جیسے مدوں کو اٹھایا گیا ہے۔
یہ انتخابی سیاست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام اپنے مسائل کو لے کر بہت پریشان ہیں ۔ اس کے بنیادی مسائل مہنگائی اور بے روزگاری ہیں، جن کا اسے کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ عوام کو نئے روزگار تو مل نہیں رہے ساتھ میں جو پرائیویٹ نوکری کر رہے ہیں ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا اور چھٹنی کی تلوار الگ لٹکی ہوئی ہے یعنی بڑھتی مہنگائی سے انہیں پرائیویٹ نوکری سے بھی اتنی راحت نہیں جتنی کی انہیں ضرورت ہے۔ ایسے میں عوام کی ایک بڑی تعداد کی نظریں سرکاری ملازمتوں پر لگی ہوئی ہیں لیکن پیپر لیک اور حکومت کی کچھ پالیسیوں کی وجہ سے وہاں پر بھی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ فوج میں ایک بڑی تعداد کو سرکاری ملازمت کی امید رہتی تھی لیکن چار سالہ اگنی ویر منصوبہ کی وجہ سے عوام کی امیدیں وہاں بھی مدھم پڑ گئی ہیں۔
ایسے میں عوام کے لئے مہنگائی ایک دہاڑتا ہوا مسئلہ ہے۔ منگل سوتر کا ذکر ہونے کی وجہ سے صرف سونے کی آسمان چھوتی قیمتوں پر نظر ڈالیں۔ پچھلے دس سالوں میں سونے کی قیمت 31 ہزار سے 75 ہزار تک پہنچ گئی ہے اور اوپر سے یہ کے گولڈ لون یعنی سونے پر قرضہ لینے والوں کی تعداد میں پچھلے پانچ سالوں میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ سونے کی قیمتوں کا افراط زر یعنی مہنگائی سے سیدھا تعلق ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک کی مہنگائی کا اندازہ لگانا ہے تو وہاں پر سونے کی کیا قیمت ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پہلے دور کے انتخابات ہو چکے ہیں اور دوسرے مرحلہ کے لئے عوام نے اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے اور اگر انہوں نے اپنے بنیادی مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ووٹ کیا تو ملک اور ان کے لئے بہتر ہے اور اگر انہوں نے پارٹیوں سے اپنی رغبت اور نفرت کی بنیاد پر ووٹ کیا تو پھر ملک اور ان کے لئے کوئی راحت کی خبر نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔