دہلی: کورونا ہاٹ اسپاٹ بنے سرکاری اسپتالوں کو حکومت نے بھیجا نوٹس، 2 گھنٹے بعد ہی لیا ’یو-ٹرن‘
سرکاری اسپتالوں کے اسٹاف لگاتار کورونا کے شکار ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کیجریوال حکومت نے ایک حکم جاری کر اسپتالوں سے جواب طلب کیا تھا۔ لیکن کچھ ایسا ہوا کہ محض 2 گھنٹے میں ہی حکم واپس لے لیا گیا۔
دہلی حکومت کے ذریعہ چل رہے لوک نایک جے پرکاش نارائن (ایل این جے پی) اسپتال میں کم از کم 21 میڈیکل اسٹاف کورونا پازیٹو پائے گئے ہیں۔ ان میں 10 نرسیں، 4 ڈاکٹر، 3 نرسنگ اسسٹنٹ اور بلڈ بینک کے 3 ملازم شامل ہیں۔ دہلی حکومت کا یہ دوسرا اسپتال ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں طبی اہلکار کورونا انفیکشن کا شکار پائے گئے ہیں۔ دو دن پہلے ہی روہنی واقع دہلی سرکار کے ہی بابا صاحب امبیڈکر اسپتال میں 40 طبی اہلکار کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا تھا۔ اس کے علاوہ دلشاد گارڈن واقع راجیو گاندھی سپر اسپیشلٹی اسپتال کے 3 طبی اہلکار کورونا پازیٹو پائے گئے ہیں جب کہ ہری نگر واقع دین دیال اپادھیائے اسپتال کے 4 ملازمین اور جی ٹی بی اسپتال کے 8 اہلکار کورونا انفیکشن کے شکار ہوئے ہیں۔
اتنا ہی نہیں، وسنت کنج واقع لیور انسٹی ٹیوٹ کے 40 طبی اہلکاروں کو کوارنٹائن میں بھیج دیا گیا ہے۔ ان میں سے 7 ڈاکٹر، 21 نرسیں، 12 نرسنگ اسسٹنٹ بھی شامل ہیں۔ یہ سبھی لوگ 2 کورونا پازیٹو مریضوں کے رابطے میں آئے تھے۔ اسی طرح شاہدرہ واقع جی ٹی بی اسپتال کے 20 طبی اہلکاروں کو بھی کوارنٹائن کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے 120 لوگوں کو کوارنٹائن کیا گیا تھا، لیکن وہ اب کام پر واپس آ گئے ہیں۔
یکم مئی کو ایل این جے پی اسپتال کی تین نرسیں کورونا پازیٹو پائی گئیں۔ ان نرسوں میں سے ایک نے حال ہی میں 14 دن کی کورونا ڈیوٹی پوری کی تھی اور اور دوسری آئی سی یو میں تعینات تھی۔ تیسری سینئر نرسنگ افسر ہے۔ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ہوٹل میں رہنے والی نرسوں میں گھبراہٹ ہے کیونکہ وہ ان تینوں نرسوں سے لگاتار رابطے میں تھی۔ جمعہ کی شام تک اس ہوٹل احاطہ کو سینیٹائز کیا گیا جہاں یہ نرسیں رکی ہوئی تھیں۔
ایل این جے پی اسپتال کے جتنے بھی طبی اہلکار پازیٹو پائے گئے ہیں، انھیں احاطہ میں ہی اسپیشل بلاک میں داخل کیا گیا ہے۔ ان میں کم از کم 5 نرسنگ افسر ہیں جو کورونا پازیٹو پائے گئے آئی سی یو میں تعینات ایک ڈاکٹر سے رابطے میں آئے تھے۔ ان سبھی کو آئسولیشن میں رکھا گیا ہے۔ پازیٹو پائی گئی ایک نرس کو دو بچوں کو بھی اسپیشل بلاک میں آئسولیشن میں رکھا گیا ہے۔ لیکن ایل این جے پی کے میڈیکل ڈائریکٹر جے سی پسّی کہتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف 4 نرسیں، 4 ڈاکٹر اور 6 اسسٹنٹ ہی کورونا پازیٹو پائے گئے ہیں۔
نرسنگ یونین کے جنرل سکریٹری پون شرما کا کہنا ہے کہ "اگر اتنی بڑی تعداد میں لوگ پازیٹو پائے جا رہے ہیں تو اسپتال کو بند کر پوری طرح سینیٹائز کرنے کی ضرورت ہے اور جو لوگ نگیٹو پائے جائیں صرف انھیں ہی اسپتال کھلنے پر واپس آنے کی اجازت ہو۔"
کچھ دن پہلے دہلی حکومت کے کینسر انسٹی ٹیوٹ میں ایک ڈاکٹر کے پازیٹو پائے جانے کے بعد او پی ڈی کو بند کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح جی بی پنت اسپتال میں بھی کئی وارڈ سیل کر دیئے گئے تھے۔ جی بی پنت اسپتال کی نرس ایسو سی ایشن کے سربراہ ایل ڈی رام چندانی کا کہنا ہے کہ "اگر ایسا ہی رہا تو باقی اسٹاف کے بھی انفیکشن کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔"
دراصل دہلی حکومت کے اسپتالوں میں ان قوانین پر صحیح طرح سے عمل نہیں ہو رہا ہے جو مرکزی وزارت صحت نے جاری کیے ہیں۔ اسی وجہ سے ان اسپتالوں کا میڈیکل اسٹاف انفیکشن کی زد میں آ رہا ہے۔ مثلاً بی ایس اے اسپتال میں پی پی ای اور این-95 ماسک تو ہیں لیکن صرف دو ہی ماسک دیئے جا رہے ہیں جنھیں 15 دن تک استعمال کرنا ہے۔ اسی طرح مریضوں اور اسٹاف کے آنے جانے کا راستہ بھی ایک ہی ہے۔ ایسے میں طبی اہلکار کے کورونا پازیٹو مریض کے رابطہ میں آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
چونکہ دہلی حکومت کے اسپتالوں میں کورونا متاثرین کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے، ایسے میں کیجریوال حکومت نے یکم مئی کو ایک حکم جاری کر صحت اہلکاروں کو ہی اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرا دیا اور ان کے خلاف کارروائی کا اشارہ دیا۔ دہلی کی ہیلتھ سکریٹری پدمنی سنگلا کی طرف سے جاری حکم میں کہا گیا کہ "غیر کورونا اسپیشل اسپتالوں میں کام کرنے والے بہت سے طبی اہلکار انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ وہ انفیکشن والے لوگوں کے رابطے میں آ رہے ہیں، جس کے بعد میڈیکل ڈائریکٹرس انھیں منمانے طریقے سے کوارنٹائن میں بھیج رہے ہیں۔ ایسے اسپتالوں میں اسٹاف کی کمی ہو رہی ہے۔" حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل ڈائریکٹرس کو سبھی اسٹاف سے اس بارے میں وضاحت لینی پڑے گی کہ آخر وہ انفیکشن کا شکار لوگوں کے رابطے میں کیسے آ گئے۔
لیکن اس حکم کے نتیجہ کا اندازہ لگتے ہی دو گھنٹے کے اندر اسے واپس بھی لے لیا گیا۔ اس بارے میں دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین سے بات کرنے کی کئی بار کوشش کی گئی لیکن انھوں نے کسی بھی کال کا جواب نہیں دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔