دہلی: عدالت نے 2020 فسادات معاملے میں نور محمد کو بری کرنے کا سنایا فیصلہ، پولیس کی سخت سرزنش
عدالت نے کہا کہ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ جس پولیس افسر نے اپنے پوسٹنگ والے علاقہ میں جرم ہوتے ہوئے دیکھا، اس نے اس سلسلے میں کوئی شکایت نہیں کی۔
دہلی کی ایک عدالت نے 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں شکایت دہندہ کے ذریعہ ملزم کی شناخت کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے سبب دہلی پولیس کی سخت سرزنش کی ہے۔ اس معاملے میں ملزم نور محمد کو فساد اور غیر قانونی اجتماع سے متعلق جرائم سے بری کرنے کا فیصلہ بھی سنا دیا۔ عدالت نے ایک پولیس گواہ کے اعتبار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’’اس کا بیان جھوٹا اور دیر سے لیا گیا لگتا ہے۔‘‘
کڑکڑڈوما کورٹ کے چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ شریس اگروال نے کہا کہ ’’بات یہ ہے کہ پولیس نے شکایت دہندہ کو ایک گواہ کی شکل میں غلط طریقے سے پیش کیا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ فریق استغاثہ کا یہ کہنا کہ نور محمد نے جرم کیا تھا، جھوٹ ہے۔‘‘ جسٹس نے ایک ہیڈ کانسٹیبل کے ذریعہ نور محمد کی شناخت سے متعلق بھی اندیشہ ظاہر کیا اور کہا کہ ہیڈ کانسٹیبل کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں لگتا کہ وہ فساد کا چشم دید تھا۔
عدالت نے جرم کو دیکھنے کے باوجود کارروائی کرنے یا ثبوت پیش کرنے میں ہیڈ کانسٹیبل کی ناکامی پر روشنی ڈالی۔ جج نے کہا کہ ’’جب فساد اور لوٹ پاٹ ہو رہا تھا تو پولیس افسر کو بھیڑ کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، جبکہ وہ خاموش تماشائی کی شکل میں وہاں کھڑا تھا۔ اس پر گواہ کے ذریعہ کوئی وضاحت نہیں دی گئی ہے۔ پولیس افسر کھڑے ہو کر صرف دیکھ رہے تھے اور حادثہ ہو جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ اس نے جرم کیے جانے کی ویڈیو بنانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔‘‘
فریق استغاثہ کے دوسرے گواہ ایک ہیڈ کانسٹیبل نے قبول کیا کہ اس نے جرم کی رپورٹ نہیں اور جرائم پیشوں کی شناخت نہیں کی۔ تضادات کے سبب عدالت نے ہیڈ کانسٹیبل کی گواہی کو ناقابل اعتبار مانا۔ جج کو یہ یقین کرنا مشکل لگا کہ ایک پولیس افسر کی شکل میں ہیڈ کانسٹیبل نے جرم کی رپورٹ نہیں کی یا جرائم پیشوں کو گرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ عدالت نے کہا کہ ’’یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ جس پولیس افسر نے اپنے پوسٹنگ والے علاقہ میں جرم ہوتے دیکھا، اس نے اس سلسلے میں کوئی شکایت نہیں کی۔ انھوں نے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے کبھی بھی اپنے پولیس اسٹیشن کو معاملے کی اطلاع نہیں دی۔ انھوں نے فوری پولیس مدد لینے کے لیے 100 نمبر پر فون نہیں کیا۔ انھوں نے کسی بھی مجرم کو گرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔‘‘
جج نے کہا کہ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی، لیکن اسے کنٹرول نہیں کر سکا۔ اگر اس میں بھیڑ کو روکنے کی ہمت تھی تو وہ جرائم پیشوں کو گرفتار کرنے کی کوشش بھی کر سکتا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ شکایت دہندہ سے یہ پوچھنے کی زحمت اٹھائیں کہ کیا شکایت دہندہ نے معاملے کی اطلاع پولیس کو دی تھی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ہیڈ کانسٹیبل اور شکایت دہندہ کا نور محمد سے پوچھ تاچھ کے دوران پولیس اسٹیشن میں موجود ہونا اتفاق کی بات لگتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ظاہر ہے شکایت دہندہ پولیس اسٹیشن نہیں آیا اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد یہ پہلی بار تھا جب شکایت دہندہ اپنے معاملے کی پوچھ تاچھ کرنے کے لیے پولیس اسٹیشن آیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ نور محمد کو صرف شبہات کی بنیاد پر قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ سزا کے لیے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔