دہلی: ’ہندو مہاپنچایت‘ میں اشتعال انگیز تقریر کرنے والے نرسنہانند اور چوہانکے کے خلاف معاملہ درج

ڈی سی پی اوشا رنگنانی نے کہا کہ ڈاسنا دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند سرسوتی اور سدرشن نیوز کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے سمیت کچھ مقررین نے دو طبقات کے درمیان نفرت اور دشمنی پیدا کرنے والے الفاظ کہے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

دہلی پولیس نے قومی راجدھانی میں ایک تقریب کے دوران اشتعال انگیز تقریر کرنے والے ہندو مہاپنچایت سبھا کے آرگنائزر اور ڈاسنا دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند سرسوتی، اور سدرشن نیوز کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے سمیت کئی لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا ہے۔ اس تقریب کا انعقاد اتوار کو کیا گیا تھا۔ پولیس ڈپٹی کمشنر (ڈی سی پی) اوشا رنگنانی نے اس تعلق سے کہا کہ ’’ڈاسنا دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند سرسوتی اور سدرشن نیوز کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے سمیت کچھ مقررین نے دو طبقات کے درمیان نفرت اور دشمنی پیدا کرنے والے الفاظ کہے۔‘‘

واضح رہے کہ یتی نرسنہانند سرسوتی کو پہلے 15 جنوری کو اسی طرح کے ایک معاملے میں اتراکھنڈ پولیس نے گرفتار کیا تھا اور 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔ اس کے بعد انھیں ضمانت پر رِہا کر دیا گیا۔ نرسنہانند ہریدوار میں تین روزہ دھرم سنسد کے آرگنائزرس میں سے ایک تھے جہاں مبینہ طور پر اقلیتی طبقہ کے خلاف نفرت بھری تقریر کی گئی تھی۔


بہرحال، سینئر افسران نے تصدیق کی ہے کہ ہندو مہاپنچایت سبھا کے انعقاد کی اجازت کے لیے درخواست شمال مغربی ضلع میں آرگنائزر پریت سنگھ، چیئرمین سیو انڈیا فاؤنڈیشن سے حاصل ہوا تھا۔ حالانکہ اس درخواست کو اس بنیاد پر نامنظور کر دیا گیا کہ آرگنائزر کو براڑی گراؤنڈ میں اس جلسہ کے انعقاد کے لیے دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے کوئی اجازت نہیں ملی تھی۔ یہ گزارش ٹھکرانے کے بعد بھی پولیس کے مطابق مذکورہ آرگنائزر پریت سنگھ صبح اپنے حامیوں کے ساتھ براڑی میدان پہنچے اور ہندو مہاپنچایت سبھا کا انعقاد کرنے لگے۔

ڈی سی پی رنگنانی کا کہنا ہے کہ ’’700 سے 800 لوگ پروگرام کی جگہ پر جمع ہو گئے اور آرگنائزر کے مدعوئین نے اسٹیج سے تقریر کرنی شروع کر دی۔ پولیس بھی پروگرام کی جگہ پر پہنچ گئی اور انتظام و انصرام کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔‘‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب یتی نرسنہانند سرسوتی نے مبینہ طور پر اسٹیج سے اشتعال انگیز تقریر کرنی شروع کر دی، جس میں ہندوؤں کو اپنے وجود کی لڑائی کے لیے اسلحہ اٹھانے کی گزارش کی گئی۔ چوہانکے نے کہا کہ وہ یکساں حقوق دینے کے خلاف ہیں۔ انھوں نے کہا ’’ہندوستانی مسلمانوں کو وہی حق ملنے چاہئیں جو پاکستان میں ہندوؤں کو مل رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘


اس درمیان صحافیوں کی شکایتوں پر الگ الگ معاملے بھی درج کیے گئے ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ پروگرام کے دوران ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔ صحافیوں نے پہلے دن میں یہ بھی الزام لگایا تھا کہ انھیں دہلی پولیس نے پروگرام کی جگہ سے حراست میں لے لیا اور مکھرجی نگر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ حالانکہ ڈی سی پی رنگنانی نے سبھی رپورٹس کی تردید کی اور کہا کہ سبھی صحافی اپنی مرضی سے بھیڑ سے بچنے کے لیے پروگرام کی جگہ پر تعینات ایک پی سی آر وین میں بیٹھ گئے اور انھوں نے سیکورٹی کو دھیان میں رکھتے ہوئے پولیس اسٹیشن جانے کا متبادل چنا۔

ڈی سی پی نے آگے کہا کہ ایک نیوز پورٹل کو دو صحافیوں نے اپنی شکایت میں الزام لگایا کہ دوپہر تقریباً 1.30 بجے جب وہ باہر نکلنے کے لیے بھاگ رہے تھے تو لوگوں کے ایک گروپ نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ان کا موبائل فون اور آئی ڈی کارڈ بھی چھیننے کی کوشش کی۔ متاثرہ صحافیوں نے میڈیکل جانچ کرانے سے انکار کر دیا۔ ایک دیگر شکایت میں ایک آزاد صحافی، جو اس پروگرام کو کور کرنے کے لیے گئے تھے، متاثرہ نے کہا کہ جب وہ دو دیگر صحافیوں کے ساتھ ایک شخص کا انٹرویو کر رہے تھے تب کچھ لوگوں نے اس کے ساتھ ہاتھاپائی اور مار پیٹ کی۔ پولیس نے بیچ بچاؤ کر انھیں سیکورٹی دی۔ ان کی میڈیکل جانچ کے بعد تعزیرات ہند کی دفعہ 323 اور 341 کے تحت معاملہ درج کیا گیا اور جانچ شروع کی گئی۔ ڈی سی پی رنگنانی نے آگے بتایا کہ سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارم کا استعمال کر افواہ اور غلط اطلاع پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔