مسلم لیگ جموں و کشمیر اور تحریک حریت پر پابندی جاری رکھنے کا فیصلہ، یو اے پی اے ٹریبونل نے لگائی مہر

دہلی ہائی کورٹ کے جج سچن دتہ کے ایک رکنی ٹریبونل کی تشکیل رواں سال جنوری میں پابندی لگانے کے پیچھے موافق اسباب کا جائزہ لینے کے لیے کی گئی تھی۔

<div class="paragraphs"><p>تحریک حریت کے بانی علی شاہ گیلانی، فائل تصویر</p></div>

تحریک حریت کے بانی علی شاہ گیلانی، فائل تصویر

user

قومی آوازبیورو

مرکزی حکومت نے گزشتہ سال مسلم لیگ جموں و کشمیر (مسرت عالم گروپ) اور تحریک حرکت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب یو اے پی اے ٹریبونل نے اس پابندی کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر مہر لگا دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے بینک اکاؤنٹس اور مالی لین دین کو بھی فریز کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل جنوری میں مرکزی حکومت نے مسلم لیگ جموں و کشمیر کی سبھی ملکیتوں کو ضبط کرنے کی ہدایت دی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ کے جج سچن دتہ کے ایک رکنی ٹریبونل کی تشکیل رواں سال جنوری میں پابندی لگانے کے پیچھے موافق اسباب کا جائزہ لینے کے لیے کی گئی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ جموں و کشمیر (مسرت عالم گروپ) کو جموں و کشمیر میں ملک مخالف اور علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں میں شامل ہونے کے سبب 27 دسمبر 2023 میں یو اے پی اے کے تحت مرکزی حکومت نے 5 سال کے لیے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ دوسری طرف جموں و کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے 2004 میں تحریک حریت کی تشکیل کی تھی۔ گیلانی کے بعد تحریک حریت کے صدر محمد اشرف صحرائی تھے، جن کا 2021 میں انتقال ہو گیا۔ یہ تنظیم حریت کانفرنس کا معاون تنظیم ہے۔ حریت کانفرنس جموں و کشمیر کی 26 تنظیموں کا گروپ ہے، جس کی تشکیل 1993 میں کی گئی تھی۔ حریت کانفرنس میں کئی ایسی تنظیمیں شامل ہیں جو پاکستان حامی اور علیحدگی پسند مانی جاتی ہیں۔ اس میں جماعت اسلامی، جے کے ایل ایف اور دخترانِ ملت وغیرہ کے نام شامل ہیں۔


2005 میں حریت کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس کے نرم رویہ والے گروپ کی قیادت میر واعظ عمر فاروق نے کی، اور شدت پسند گروپ کی قیادت سید علی شاہ گیلانی نے کی۔ گیلانی کے انتقال کے بعد حریت کانفرنس کی قیادت مسرت عالم بھٹ کے پاس آ گئی۔ بھٹ کو ہندوستان مخالف اور پاکستان کی حمایت میں ایجنڈا چلانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ بھٹ فی الحال جیل میں ہے اور اس کی پارٹی مسلم لیگ آف جموں و کشمیر کو 27 دسمبر کو ممنوعہ تنظیم قرار دیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔