موجودہ حالات اور وقت کے نشانات... حمرا قریشی
بارہویں کی سیاسیات کی کتاب سے حقائق کو حذف کیا جانا تاریخ پر گرد ڈالنا ہے، اس عمل سے تاریخ کو بھی نہیں بخشا گیا، حتیٰ کہ بابری مسجد کی اصطلاح ہی بدل دی گئی۔
این سی ای آر ٹی کی طرف سے بارہویں جماعت کی سیاسیات کی کتابوں میں کچھ حصے حذف کر دیے گئے ہیں۔ حقائق کو چھپانے کی یہ خوفناک حقیقت ہے اور سمجھ نہیں آ رہا کہ اس عمل پر آنسو بہانا ہے، چیخنا ہے، یا پھر صرف غم کے سمندر میں ڈوب جانا ہے۔ اس نصابی کتاب سے نہ صرف وہ اہم حصے حذف کر دیے گئے جو 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام اور تباہی کی تفصیلات پیش کرتے تھے، بلکہ ایل کے اڈوانی کی قیادت میں نکلی رتھ یاترا اور کارسیوکوں (جنھوں نے بابری مسجد کو تباہ کیا) کے حوالے سے موجود جانکاری اور دیگر حقائق بھی نکال دیے گئے۔ حتیٰ کہ 2002 کے گجرات فسادات کی تفصیلات بھی حذف کر دی گئیں۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ’بابری مسجد‘ سے ’مسجد‘ لفظ ہی حذف کر دیا گیا، بلکہ اس کی جگہ ایک نئی اصطلاح پیش کی گئی ’تین گنبد والا ڈھانچہ‘۔
بارہویں کی سیاسیات کی کتاب سے حقائق کو حذف کیا جانا تاریخ پر گرد ڈالنا ہے۔ اس عمل سے تاریخ کو بھی نہیں بخشا گیا، حتیٰ کہ مسجد کی اصطلاح ہی بدل دی گئی۔ تاریخ اور تاریخی حقائق اب پس پردہ جا چکے ہیں، یا چھُپ چکے ہیں، یا اس پر سفید رنگ چڑھا دیا گیا ہے۔ یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے اور ملکی باشندوں کے لیے انتہائی تشویشناک بھی ہے۔
پہلے بھی کچھ مواقع پر دیناناتھ بترا کی سربراہی والی آر ایس ایس سے وابستہ تنظیم ’شکشا سنسکرت اتھان نیاس‘ نے نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کو سفارشات کی ایک فہرست بھیجی تھی، جس میں اس کی نصابی کتابوں میں متعدد تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بترا نے این سی ای آر ٹی سے انگریزی، اردو اور عربی الفاظ، انقلابی شاعر پاش کی ایک نظم، مرزا غالب کا ایک شعر، رابندر ناتھ ٹیگور کے نظریات، مصور ایم ایف حسین کی سوانح عمری سے کچھ اقتباسات کو بھی ہٹانے کے لیے کہا۔ علاوہ ازیں بترا نے یہ بھی خواہش ظاہر کی کہ بطور ’خیر خواہ‘ مغل بادشاہوں سے متعلق حوالے، بی جے پی بطور ’ہندو‘ پارٹی، نیشنل کانفرنس بطور ’سیکولر‘، 1984 کے فسادات پر سابق وزیرا عظم منموہن سنگھ کا معافی مانگنا، اور ایک جملہ کہ ’2002 میں گجرات فسادات کے دوران تقریباً 2000 مسلمان مارے گئے‘، ان سبھی کو حذف کر دیا جائے۔
نیوز رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ’شکشا سنسکرت اُتھان نیاس‘ کچھ حقائق پر اعتراض بھی ظاہر کیا۔ مثلاً درجہ 11 کی سیاسیات کی نصابی کتاب میں ’1984 میں کانگریس کی حاصل زبردست اکثریت‘ کا تذکرہ ہے، لیکن ’1977 کے انتخابات‘ کی تفصیل پیش نہیں کی گئی ہیں؛ درجہ 12 کی سیاسیات کی نصابی کتاب میں ’نیشنل کانفرنس‘ کو جموں و کشمیر کی ایک سیکولر تنظیم بتایا گیا ہے؛ اسی طرح درجہ 10 کی انگریزی کی نصابی کتاب میں ’قوم پرستی کو دیگر نظریات کے خلاف‘ پیش کیا گیا ہے، کیونکہ ’رابندر ناتھ ٹیگور کے نظریات کا حوالہ دے کر قومیت اور انسانیت کے درمیان شگاف کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘۔ شکشا سنسکرت اُتھان نیاس یہ بھی چاہتا تھا کہ ہندی کی نصابی کتابوں میں یہ شامل ہونا چاہیے کہ قرون وسطیٰ کے مشہور صوفی امیر خسرو نے ’ہندو اور مسلمانوں کے درمیان شگاف کو بڑھایا‘۔
شکشا سنسکرت اُتھان نیاس نے قبل میں رامانوجن کے مضمون ’تھری ہنڈریڈ رامائن: پانچ مثالیں‘ اور دہلی یونیورسٹی کے انڈر گریجویٹ نصاب سے ترجمہ پر تین خیالات کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا، اور عدالت پہنچ کر یہ خواہش بھی ظاہر کی تھی کہ وینڈی ڈونیگر کی کتاب ’دی ہندوز‘ کو ہندوستان میں فروخت کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ یہ مطالبات پورے ہو گئے۔ رامانوجن کا مضمون دہلی یونیورسٹی کی فہرست سے ہٹا دیا گیا اور ڈونیگر کی کتاب کے پبلشر پینگوئن انڈیا نے ’دی ہندوز‘ کو بازار سے واپس لے لیا۔
یہاں یہ تذکرہ لازمی ہے کہ 2014 میں گجرات کے سرکاری اسکولوں کو دیناناتھ بترا کی تحریر کردہ 6 نصابی کتابیں بطور ’ضمنی ادب‘ دی گئی تھیں، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کاروں کا ایجاد قدیم ہندوستان میں ہوا تھا۔ اس میں بچوں سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ ایک ’وسیع ملک‘ بنائیں جس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سمیت کئی ممالک شامل ہوں۔
گجرات کے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں میں موجود ’روزہ‘ جیسے الفاظ کے معنی میں تحریف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں 2017 کے موسم گرما میں آئی سی ایس ای بورڈ کے درجہ 6 کی وہ نصابی کتاب ہندوستان بھر کے اسکولوں میں پہنچ گئی تھی جس میں مساجد اور اذان کو ’صوتی آلودگی‘ کی وجہ قرار دیا گیا تھا۔ سیلینا پبلشرز کے ذریعہ شائع اس کتاب میں صوتی آلودگی پر موجود ایک باب میں صوتی آلودگی کے ذرائع کا تذکرہ ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ صوتی آلودگی کے معمول کے ذرائع، یعنی ٹرین، کار، ہوائی جہاز وغیرہ کی تصویر کے ساتھ مسجد کے سامنے ایک شخص (جو بہت پریشان ہے) کے کان بند کیے ہوئے تصویر بھی دی گئی۔ ظاہر ہے اس تصویر کے ذریعہ اذان کو صوتی آلودگی کا ایک ذریعہ بتایا گیا ہے۔
تشویش کے کچھ دیگر معاملات!
حالیہ رپورٹس پر نظر ڈالیں تو فرقہ پرستی اس خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے کہ محض یہ افواہ پھیلا دیں کہ ایک مسلم کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا گیا ہے، پھر اگلے ایک گھنٹے میں بلڈوزر اس گھر کو تباہ کرنے کے لیے تیار نظر آئے گا جس مسلم خاندان کی ملکیت کو ہدف بنایا گیا ہے۔ کیا اس بربریت کے ساتھ گھروں کو منہدم و تباہ کیا جا سکتا ہے! ہاں، بربریت اس سطح کے عمل کے لیے ایک اصطلاح ہے۔
ہم کہاں جا رہے ہیں! مسلمانوں کو لگاتار نشانہ بنایا جا رہا ہے، حتیٰ کہ مسلمانوں کی مالکانہ حق والی دکان یا دکانوں کو بھی سیاسی مافیا کسی بھی بہانہ سے ہدف بنا سکتے ہیں۔ حال ہی میں دایاں محاذ کے غنڈوں نے اتراکھنڈ میں ململ کی دکانوں کو نشانہ بنایا، اور گزشتہ ہفتہ ہماچل پردیش کے ناہن میں ایک مسلمان کی کپڑوں کی دکان کو ہندوتوا غنڈوں نے لوٹ لیا۔ یہ لوٹ مار عوام کے سامنے ہوئی۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کا قتل عام بھی جاری ہے۔ آخر ہم کہاں جا رہے ہیں!
اور اس درمیان سیتامڑھی کے رکن پارلیمنٹ دیویش چندر ٹھاکر کا انتہائی اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ بیان سامنے آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یادووں اور مسلمانوں کے لیے کام نہیں کریں گے کیونکہ انھوں نے اسے ووٹ نہیں دیا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اس تلخ، فرقہ وارانہ اور شیطانی بیان دینے کے بعد وہ اس سے دوری اختیار کر رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔