’دارالعلوم دیوبند حکومت سے منظور شدہ نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ غیر قانونی ہے‘، درالعلوم دیوبند کی وضاحت

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے بے بنیاد خبروں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہمارے مدارس کا کسی سرکاری بورڈ سے الحاق نہیں ہے، لیکن ان کو غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا۔

مفتی ابوالقاسم نعمانی
مفتی ابوالقاسم نعمانی
user

عارف عثمانی

دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مدارس اسلامیہ کے سروے کے سلسلہ میں رپورٹ شائع کرتے وقت قومی اورمقامی ذرائع ابلاغ کو اپنا سنجیدہ اور ذمہ دارانہ فریضہ ادا کرنا چاہئے۔ غیر ذمہ دارانہ اور غلط معلومات پر مبنی رپورٹنگ سے مدارس کے کردار پر کوئی فرق پڑے نہ پڑے، لیکن میڈیا کی شبیہ دنیا میں ضرور خراب ہوتی ہے۔

دراصل یوپی میں مدارس کا سروے ختم ہو چکا ہے اور دارالعلوم دیوبند کے حکومت سے منظور شدہ نہ ہونے پر عجیب و غریب طرح کی سرخیاں لگائی جا رہی ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اس قسم کی بے بنیاد خبروں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہمارے مدارس کا کسی سرکاری بورڈ سے الحاق نہیں ہے، لیکن ان کو غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے تمام مدارس دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے مطابق قائم ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ آج حکومت و انتظامیہ کی جانب سے اس کی وضاحت آ گئی ہے۔


واضح ہو کہ حکومت اترپردیش کے ذریعہ کرائے جا رہے غیر سرکاری مدارس کے سروے کا کام 20 اکتوبر کو پورا ہو گیا۔ سروے میں ریاست بھر کے ساڑھے سات ہزار کے قریب غیر منظور شدہ اور غیر امداد یافتہ مدارس کا پتہ چلا ہے۔ حالانکہ سروے کی پوری رپورٹ 15 نومبر تک ضلع مجسٹریٹ کے ذریعہ ریاستی حکومت کو ارسال کی جائے گی۔ وہیں حکومت کی جانب سے آج یہ وضاحت بھی سامنے آ گئی ہے کہ سروے کا مقصد صرف اعداد و شمار جمع کرنا ہے، ان کی کوئی جانچ نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی مدرسہ غیر قانونی ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ سروے میں عالمی شہرت یافتہ ادارے دارالعلوم دیوبند اور سہارنپور میں واقع مظاہر العلوم جیسے بڑے مدارس جو حکومت سے کوئی امداد نہیں لیتے ہیں، وہ بھی غیر منظور شدہ کے زمرے میں ہیں۔ حالانکہ یہ غیرقانونی نہیں ہیں۔ اس مسئلہ کو لے کر کچھ میڈیا گروپ نے آج کچھ اس انداز کی خبریں شائع کی ہیں جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ غیر منظور شدہ مدارس دراصل غیر قانونی ہیں۔


سروے کو لے کر ریاست اترپردیش کے مدرسہ تعلیمی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نے کہا کہ سروے کا کسی بھی طریقہ سے کسی جانچ سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ سروے سے متعلق اعداد و شمار کی بنیاد پر بچوں کے لیے اچھی تعلیم کا نظم کرتے ہوئے ان کے بہتر مستقبل اور انہیں ملک و سماج کی مین اسٹریم میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔

دوسری طرف ضلع سہارنپور کے محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے آفیسر بھرت لال گوڑ نے بتایا کہ ضلع سہارنپور کے سبھی مدارس کا سروے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جس کی رپورٹ ضلع مجسٹریٹ کو سونپ دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع سہارنپور میں دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور سمیت کل 306 مدارس غیر منظور شدہ ہیں جو حکومت سے کوئی مدد نہیں لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مدارس غیر قانونی نہیں ہیں، اکثر مدارس سوسائٹی ایکٹ اور ٹرسٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں، ان کو غیرقانونی نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ سروے کے دوران مدارس انتظامیہ نے بھرپور تعاون کیا ہے اور کہیں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہے۔


محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے آفیسر نے بتایا کہ  ضلع سہارنپور میں 754 مدارس محکمہ اقلیت میں رجسٹرڈ ہیں ان میں پانچویں سطح کے 664، آٹھویں سطح کے 80 اور دسویں سطح کے 10 مدرسے شامل ہیں، جبکہ 306 مدارس غیر سرکاری امداد سے چل رہے ہیں۔ ان مدارس میں بچے دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہارنپور بھی شامل ہیں۔ حالانکہ ان مدارس کو غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ حکومت سے کسی طرح کا تعاون یا چندہ نہیں لیتے ہیں۔ یہاں حکومت کی جانب سے جاری نصاب بھی نہیں پڑھایا جاتا ہے۔

اس معاملہ میں دارالعلوم دیوبند کا کہنا ہے کہ ادارہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے اور ہندوستانی قانون میں دی گئی مذہبی آزادی کے تحت یہاں پر مذہبی اور جدید تعلیم دی جاتی ہے۔ دارالعلوم کے طمابق گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ سے چل رہے ادارہ نے کبھی حکومت کی جانب سے کسی طرح کی کوئی مدد یا چندہ نہیں لیا ہے۔ اس کا سارا خرچ عوام کے ذریعہ دیے گئے چندہ سے چلتا ہے۔ اس سلسلہ میں ضلع مجسٹریٹ سہارنپور اکھلیش سنگھ نے بھی بتایا کہ دارالعلوم دیوبند حکومت سے کوئی مدد نہیں لیتا ہے اور یہ سوسائٹی ایکٹ میں رجسٹرڈ ہے، اسے غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا۔ سروے کو لے کر لوگوں میں کچھ غلط فہمی ہے۔ سروے کا مقصد دراصل یہ معلوم کرنا ہے کہ کتنے مدارس سرکار سے مدد حاصل کر رہے ہیں۔ جو مدارس حکومت سے مدد حاصل کر رہے ہیں ان کا محکمہ اقلیت میں رجسٹریشن ضروری ہے، لیکن جو مدارس حکومت سے کوئی مدد نہیں لے رہے ہیں ان کو غیر قانونی نہیں کہہ سکتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔