گزشتہ 20 سالوں میں زیر حراست 1888 لوگوں کی موت، صرف 26 پولیس اہلکار قصوروار ثابت!

یو پی پولیس پر حراست میں اموت کو لے کر سوال اٹھتے رہے ہیں، اسی درمیان الطاف کی موت نے پولیس حراست میں ہونے والی اموت کو لے کر پھر سے بحث چھیڑ دی ہے۔

جیل، علامتی تصویر آئی اے این ایس
جیل، علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

یو پی پولیس پر حراست میں اموات کو لے کر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ اسی درمیان الطاف کی موت نے پولیس حراست میں ہونے والی اموات کو لے کر پھر سے بحث شروع کر دی ہے۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 20 سالوں میں ملک میں 1888 لوگوں کی موت پولیس حراست میں ہوئی ہے۔ لیکن صرف 26 پولیس والے ہی اس کے قصوروار ثابت ہوئے ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک بھر میں گزشتہ 20 سالوں سے حراست میں موت معاملوں پر صرف 893 پولیس اہلکاروں کے خلاف معاملے درج ہوئے ہیں۔ ان میں سے 358 کے خلاف فرد جرم داخل کیا گیا، لیکن صرف 26 پولیس اہلکار ہی قصوروار ثابت ہوئے ہیں۔


این سی آر بی ڈاٹا کے مطابق حراست میں ہوئیں اموات معاملے میں 2006 میں سب سے زیادہ 11 پولیس اہلکاروں کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس میں سے یو پی پولیس کے 7 اور مدھیہ پردیش پولیس کے 4 جوان شامل تھے۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 2020 میں 76 لوگوں کی موت پولیس حراست میں ہوئی تھی۔ گزشتہ سال گجرات میں سب سے زیادہ 15 لوگوں کی پولیس حراست میں موت ہوئی۔ اس کے علاوہ آندھرا پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، ہریانہ، کرناٹک، کیرالہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اڈیشہ، پنجاب، راجستھان، تمل ناڈو، تلنگانہ اور مغربی بنگال سے بھی ایسے معاملے سامنے آئے ہیں۔ لیکن اس کے لیے اب تک کوئی پولیس اہلکار قصوروار نہیں قرار دیا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ کچھ دن پہلے یو پی کے کاس گنج میں الطاف نام کے لڑکے کی موت پولیس حراست میں ہو گئی تھی۔ اسے ایک لڑکی کو بھگانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولسی کا کہنا تھا کہ الطاف نے غسل خانہ کے نل سے لٹک کر خودکشی کر لی ہے۔ لیکن پولیس کی تھیوری پر لوگ بھروسہ نہیں کر رہے ہیں۔ نل سے لٹک کر خودکشی کرنے کو لے کر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پولیس حراست میں ہونے والی اموات کو لے کر بھی بحث شروع ہو گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔