اتراکھنڈ میں لو جہاد کے نام پر نفرت کی کھیتی، حالات دھماکہ خیز
محسن کا کہنا ہے کہ 3 سال قبل دہرادون کے رائے والا میں ایک مسلم نوجوان کے ذریعہ ہندو لڑکی کے مبینہ اغوا پر ہنگامہ ہوا تھا۔ اس دوران مسلمانوں کی تمام دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
محسن احمد (36 سال) پچھلے 15 سالوں سے اتراکھنڈ میں چمڑے کی جیکٹیں فروخت کر رہے تھے۔ وہ پھیری لگانے کے لیے دور دراز کے دیہاتوں میں جایا کرتے تھے، انھیں کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آباد منصوری (32) بھی ایک دہائی سے دہرادون اور آس پاس کے علاقوں میں یہی کام کر رہے تھے۔ راجو (43) ہلدوانی، نینی تال، اترکاشی میں گھریلو سامان فروخت کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ یہ تمام اب گھر پر بیٹھ گئے ہیں۔ آباد منصوری نے اب روزمرہ کی ضروریات کی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی ہے۔ محسن رنگائی پتائی کے کام میں مصروف ہو گئے ہیں اور راجو اب مقامی طور پر الیکٹرانکس کا کام کر رہے ہیں۔ تینوں بجنور کے رہنے والے ہیں اور ایک دہائی سے زیادہ عرصہ اتراکھنڈ میں گزار چکے ہیں۔ اب وہ وہاں کاروبار کرنے نہیں جاتے اور اس کی وجہ وہ ماحول کی تبدیلی کو قرار دیتے ہیں۔
محسن کا کہنا ہے کہ 3 سال قبل دہرادون کے رائے والا میں ایک مسلم نوجوان کے ذریعہ ہندو لڑکی کے مبینہ اغوا پر ہنگامہ ہوا تھا۔ اس دوران مسلمانوں کی تمام دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ٹھیلیاں الٹ دی گئیں۔ پھیری کا سامان چھین لیا گیا۔ سیلون کی دکانوں کو آگ لگا دی گئی اور سینکڑوں مسلمانوں کو علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی گئی۔ کئی پھیری والوں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔ محسن کا کہنا ہے کہ اس سب سے ان کی ہمت ٹوٹ گئی اور درجنوں پھیری والوں نے علاقہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد کاشی پور، ادھم پور سنگھ نگر، دہرادون، رام نگر، پوڑی گڑھوال میں بھی اس طرح کے واقعات منظر عام پر آئے، جہاں عام طور پر مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والے بیرونی کاروباری افراد کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں خوف کی وجہ سے بہت سی جگہیں چھوڑنی پڑیں، محسن کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے اتراکھنڈ میں کاروبار کا ارادہ ترک کر دیا اور اب تک سینکڑوں پھیری والے اتراکھنڈ چھوڑ چکے ہیں۔
اس طرح کے واقعات رونما ہونے کے پیچھے کی کہانی دہرادون کی مسلم کالونی کے رہائشی نوشاد احمد نے بیان کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں تمام اسمارٹ فونز پر بہت زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیو نظر آ رہی ہے۔، یہ ویڈیو مسلمانوں کے بارے میں ہیں۔ اس میں ایک ہندوتوا لیڈر جھوٹے اعداد و شمار کی فہرست پڑھ کر بتا رہے ہیں کہ دہرادون میں 31 فیصد اور ہریدوار میں 30 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے اور اتراکھنڈ کے تمام اضلاع میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ وہ ہر ضلع میں مسلمانوں کی آبادی کے جھوٹے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں، ان کو خوف زدہ کرتا ہے اور انہیں ’دیو بھومی‘ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے بہت سی منفی باتیں کرتے ہیں۔ اتراکھنڈ ایک پرامن علاقہ تھا، وہاں فرقہ وارانہ سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔
ان دنوں اتراکھنڈ میں گرمیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں سیاح پہنچ رہے ہیں۔ گھنٹوں جام میں پھنسے لوگ پہاڑی علاقوں میں سکون حاصل کرنے آ رہے ہیں۔ روزانہ ہزاروں سیاح خاص طور پر مسوری، دھنولٹی اور نینی تال پہنچتے ہیں۔ دریں اثنا، اترکاشی کے حالات دھماکہ خیز ہیں، جہاں ایک ہندو لڑکی کے مسلمان نوجوان کے ساتھ بھاگنے کی کوشش کے بعد لو جہاد کے نام پر ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا۔ مسلمانوں کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑ رہا ہے۔ ان کی دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، انہیں مارا پیٹا جا رہا ہے اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے پولیس کو کافی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ اترکاشی کے پرولا میں 28 مئی کو پیش آنے والے ایک واقعے نے یہاں کی صورتحال کو بہت سنگین بنا دیا ہے۔
پرولا کی ہندو لڑکی کے مبینہ طور پر فرار ہونے کی کوشش کے بعد اس قسم کی صورتحال پیدا ہوئی، تاہم یہ واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی مسلمان لڑکے کے ساتھ ہی بھاگ رہی تھی۔ دراصل، لڑکی کو دو نوجوانوں زبیر خان اور جتیندر سینی کے ساتھ بس اسٹینڈ پر دیکھا گیا تھا۔ اب اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مہاپنچایت بلائی گئی ہے۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ضلع صدر محمد زاہد کو بھی دکان بند کر کے بھاگنا پڑا! 28 مئی سے یہاں 30 دکانیں بند ہیں۔ ’یمنا گھاٹی ہندو جاگرتی سنگٹھن‘ نامی تنظیم کی کال پر ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر مظاہرہ کیا۔ تنظیم کے سربراہ کیشو گری مہاراج کہتے ہیں کہ پھیری والوں اور کباڑیوں سمیت تمام باہر کے لوگوں کو یہاں سے نکال دینا چاہیے اور ان سے دکانیں خالی کرا لی جانی چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں : کیا عمران خان کا حشر بھٹو جیسا ہوگا؟... ظفر آغا
کانگریس لیڈر نریندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ اتراکھنڈ کا ماحول خراب کرنے اور پولرائزیشن کو فروغ دینے کی کوشش ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کے تئیں لوگوں میں غصہ ہے۔ وہ علاقے میں نظر نہیں آئے ہیں۔ اتراکھنڈ کے لوگوں کا 2024 میں مختلف ارادہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہے۔ ایک شخص کی غلطی پر پوری برادری کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ تقسیم کی یہ سیاست بی جے پی کے لوگوں کو پسند ہے۔ جو بھی قصوروار ہے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، لیکن یہ سچ ہے کہ اتراکھنڈ میں فرقہ پرستی کو بڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جس کے دور رس منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ حال ہی میں پوڑی گڑھوال میں والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے والے محبت کرنے والے جوڑے کو بھی ہندو تنظیموں نے شادی کرنے سے روک دیا تھا جب کہ لڑکی کے والد ماضی میں ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ بی جے پی ہی یہاں کا ماحول خراب کر رہی ہے اور آنے والے انتخابات اس کے مرکز میں ہیں، جس میں انہیں شکست نظر آ رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔