کورونا: ھند بحرالکاہل خطہ میں کشیدگی بڑھنے کے اشارے
میڈیا رپورٹوں کے مطابق آسٹریلوی بحریہ اور تین امریکی جنگ جہاز اس ہفتے چینی حکومت کے سروے جہاز ہائیانگ ڈزی 8 کے قریب آ گئے تھے جس پر متنازع علاقے میں تیل کی کھدائی کرنے کا شبہ ہے۔
نئی دہلی: عالمی وبا کورونا وائرس 'کووڈ 19' سے دوچار دنیا کے درمیان ہند بحرالکاہل خطہ میں ایک اور بحران کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ بحیرہ جنوبی چین کے متنازع علاقے میں چینی جارحیت بڑھنے کے ساتھ ہی امریکی بحری جہاز کے ساتھ ایک آسٹریلوی جنگی بیڑے کے بھی آ جانے سے ملیشیا، ویت نام اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق آسٹریلوی بحریہ فریگیٹ ایچ ایم اے ایس پرامٹا اور تین امریکی جنگ جہاز اس ہفتے چینی حکومت کے سروے جہاز ہائیانگ ڈزی 8 کے قریب آ گئے تھے جس پر متنازع علاقے میں تیل کی کھدائی کرنے کا شبہ ہے۔
آسٹریلیا کے دفاع افسر پیٹر جنگنگز نے کہا کہ پرامٹا کی تعیناتی کا فیصلہ تو ایک سال پہلے ہی لے لیا گیا تھا۔ اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ جہاز ایک ایسے نازک فوجی ماحول میں آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مارچ کے بعد اس علاقے میں ایسا ماحول بنایا گیا کہ جاپان سے لے کر جنوبی چین کے سمندر تک چین جارحانہ موڈ میں نظر آ رہا ہے۔
ملیشیا کی سرکاری تیل کمپنی پیٹروناس کا ایک جہاز بھی اس علاقے میں موجود ہے۔ ایک امبی فین جنگی طیارہ ’دی امریکہ‘ اور ایک گائڈیڈ میزائل كروزر ’دی بنکر ہل‘ اس علاقے میں داخل ہو گئے ہیں جس پر ملیشیا اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ اسی وقت اسی علاقے میں چینی حکومت کا ایک جنگی بیڑا پیٹروناس بیڑاکا پیچھا کر رہا تھا جس پر تیل کی کھدائی کرنے والے اوزار لدے ہوئے تھے۔ چینی اور آسٹریلیائی جنگی بیڑا بھی آس پاس مکمل طور پر چوکنے ہیں۔
عالمی وبا كووڈ 19 کو کنٹرول کرنے کی چین کی کوششوں کے باوجود چینی فوج نے جنوبی چین کے سمندر میں اپنی سرگرمیوں کو کم نہیں کیا ہے جو اسٹریٹجک نقطہ نظر سے بہت اہم ہے اور جہاں سے دنیا کی ایک تہائی سمندری مال برداری ہوتی ہے. فوجی ماہرین کے مطابق چینی فوج کی عرصے سے چلی آ رہی جارحیت اور بڑھ گئی ہے۔
آسٹریلوی اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنگنگز کا کہنا ہے کہ یہ چین کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے جس کے تحت وہ کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا کی توجہ ہٹا کر اور امریکہ کی صلاحیت کو کم کر کے پڑوسی ممالک پر دباؤ بڑھایا جائے۔ جنوری کے بعد سے کورونا وائرس کی وبا میں تیزی سے اضافہ ہوا اور چینی حکومت اور اس کے کوسٹ گارڈ اور بحریہ، بحیرہ جنوبی چین کے متنازع علاقے میں سرگرم ہیں اورعلاقائی سمندری سیکورٹی فورسز سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں ہیں اورماہی گیروں کو تنگ کر رہے ہیں۔
اسی ماہ ویت نام کے سیکورٹی فورسز نے الزام لگایا تھا کہ ایک چینی گشتی جہاز نے ایک ویتنامی فش فیری کو ٹکر مار کر ڈبو دیا تھا۔ مارچ میں چین نے سمندر کے مصنوعی جزیرہ پر دو نئے ریسرچ اسٹیشنوں کو کھول دیا ہے۔ اس علاقے پر فلپائن اور دیگر ممالک کا دعوی ہے۔ ان تحقیقی مراکز پر فوجی بنکر اور فوجی استعمال والے رن وے بھی بنائے گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ چینی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے جنوبی چین کے سمندر میں دو نئے ضلع قائم کیے ہیں جن میں درجنوں چھوٹے چھوٹے ٹاپو اور چٹانیں ہیں۔ ان میں سے کئی تو پانی میں ڈوبے ہوئے تھے جن پر بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی کا علاقائی دعوی بھی نہیں بنتا ہے۔ امریکہ کے ہونولولو میں واقع ’ڈینیل کے انوئے ایشیا پیسفک سینٹر فار سیکورٹی اسٹڈیز‘ میں پروفیسر الیگزینڈر ووونگ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جبکہ چین كووڈ 19 کی وبا سے مقابلہ کر رہا ہے، وہ طویل مدتی اسٹریٹجک مقاصد کو بھی ذہن میں رکھے ہوئے ہے۔ چین کی جانب سے جنوبی بحیرہ چین میں ایک نئے حالات کو جنم دینا چاہتا ہے جس میں ہر بات میں ان کا تسلط نظر آئے گا. اس کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ جارحانہ ہو رہا ہے۔
ویسے امریکہ کا جنوبی چین کے سمندر میں کوئی علاقائی دعوی نہیں ہے لیکن امریکی بحریہ کا کہنا ہے کہ وہ اس آبی خطہ میں کئی دہائیوں سے امن بنائے رکھتی آئی ہے۔ امریکی فوجی حکام نے چین کو اس علاقے میں بڑھتے ہوئی عسکری سرگرمیوں کے خلاف کئی بار خبردار بھی کیا ہے۔
امریکہ کی ہند بحرالکاہل کمان کی ترجمان لیفٹیننٹ کمانڈر نکول شویگ مین نے کہا کہ بحیرہ جنوبی چین میں امریکی بحریہ کی آپریشنل موجودگی کے ذریعے ہم اپنے ساتھی ممالک اور پارٹنرز کی شپنگ اور ہوائی نقل و حمل کی آزادی اوران بین الاقوامی اصولوں کی نگہبانی کر رہے ہیں جو ہند بحرالکاہل کے علاقے میں سیکورٹی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی ان کے اقتصادی مفادات کے تعین کی کوششوں میں مدد کر رہا ہے۔
چین کی حکومت نے امریکہ کے موقف پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اس خطہ کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔’دی امریکہ‘ اور’بنکر ہل ‘کی موجودگی سے کچھ نہیں ہوگا۔ سنگاپور واقع تھنک ٹینک ’آئیسز یوسف اسحاق انسٹی ٹیوٹ‘ میں بحیرہ جنوبی چین کے ماہر ایان اسٹوری نے سوال کیا ’’امریکہ کا یہاں ارادہ کیا ہے؟ صرف یہ کہنا کہ ہم یہاں ہیں، یا پھر وہ چینی سروے کرنے والے جہاز کی نگرانی کرنے یا اس کے کام کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
منگل کو امریکی بحریہ نے اپنے جنگی جہازوں کی تصاویر کو ٹوئٹر پر پوسٹ کیا۔ ان میں ایک تیسرا جہاز’دی بیری‘ بھی تھا جو ایک ڈسٹرائر ہے۔ امریکی بحریہ نے کہا ہے کہ یہ جہاز ہند بحرالکاہل کے علاقے میں سیکورٹی اور استحکام کے لئے تعینات ہیں۔ جس علاقے میں امریکی جہاز موجود ہیں، وہ ملیشیا سے دو سو نوٹیکل میل دور ہے۔ ملیشیا، چین اور ویت نام تینوں ممالک کا متنازع آبی علاقہ میں موجود قدرتی وسائل پر حق کا دعوی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 23 Apr 2020, 6:00 PM