مردم شماری ملتوی کرنے کا نتیجہ: ملک کے کم از کم 10 کروڑ شہری پی ڈی ایس کے دائرہ سے باہر
2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر، 80 کروڑ لوگ 2013 میں سبسڈی والے خشک راشن کے لئے اہل تھے جبکہ آبادی میں متوقع اضافے کے ساتھ یہ تعداد سال 2020 میں 922 کروڑ تک پہنچ جانی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
نئی دہلی: حال ہی میں 2 ستمبر کو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا جس میں وہ تلنگانہ کے ایک ضلع مجسٹریٹ کی سرزنش کرتی نظر آ رہی ہیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہیں ایک سرکاری راشن کی دکان پر وزیر اعظم نریندر مودی کی کوئی تصویر نظر آئی! انہوں نے ٹوئٹ کیا ’’پی ایم جی کے اے وائی (پردھان منتری غریب کلیان یوجنا) کے تحت مفت دیئے جانے والے 5 کلو اناج کی پوری قیمت مودی حکومت برداشت کرتی ہے۔ مودی حکومت نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ (این ایف ایس اے) کے تحت اناج کی قیمت کا 80 فیصد سے زیادہ برداشت کرتی ہے۔‘‘ یہ سب کہتے ہوئے وہ سوال کرتی ہیں ’’ کیا ایسے حالات میں راشن کی دکانوں پر وزیر اعظم مودی کا پوسٹر/بینر لگائے جانے کوئی مسئلہ ہے؟‘‘
ان کا اس طرح مشتعل ہو جانا توجہ مبذول کراتا ہے، خاص طور اس وقت جب وہ ایک ایسی ریاستی حکومت پر تبصرہ کر رہی ہوتی ہیں، جہاں ان کی پارٹی اقتدار میں نہیں ہے۔ آپ اسے نظر انداز کر بھی دیں لیکن کیا یہ بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کروڑوں لوگوں سے وابستہ سلگتے ہوئے مسئلے سے کس طرح نمٹ رہی ہے؟
دراصل، حکومت راشن کارڈ کو آدھار اور فنگر پرنٹ سے جوڑ کر شفافیت ظاہر کرنے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن وہ اصل کام کو بھول گئی ہے، جو اسے حقیقی ضرورت مندوں کی مسلسل شناخت کے لیے کرنا چاہیے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ راشن حاصل کرنے کے حق سے محروم ہیں۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے حکومت نے کم از کم دو سال سے منہ موڑ رکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اصل مسئلہ بیان کریں، یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت سبسڈی والے راشن کی فراہمی کا انتظام یو پی اے حکومت نے 2013 میں کیا تھا اور یہ عطیہ نہیں بلکہ قانونی حق ہے۔ اس کے لئے رقم ملک کے ٹیکس دہندگان ادا کرتے ہیں۔ کسی کا بھلا کرنے کی بات تو چھوڑیں، حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی حکومت اس معاملے میں سنگین کوتاہی کی مجرم ہے۔
یہ نکتہ پہلے ماہر اقتصادیات جیاں دریز اور پھر ریتیکا کھیڑا نے اٹھایا۔ اس کے بعد جب سپریم کورٹ نے مہاجر مزدوروں کی صورتحال کا ازخود نوٹس لیا تو اس معاملے میں اس کے فیصلے سے اس نظریے کو تقویت ملی۔ اس کوتاہی کے نتیجے میں وبا اور اس کے بعد کے دور میں لاکھوں غریب عوامی نظام ترسیل (پی ڈی ایس) سے باہر ہو گئے۔ دو سال پہلے جیاں دریز اور ریتیکا کھیڑا نے نشاندہی کی تھی کہ حکومت ابھی بھی 2011 کی مردم شماری کو فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت راشن کارڈ سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کا تخمینہ لگانے کی بنیاد کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور وہ اس ایک دہائی کے دوران ہو نے والی آبادی کے اضافے کو نظر انداز کر رہی ہے۔
کووڈ-19 کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت نے مردم شماری 2021 کے عمل کو مؤخر کر دیا تھا اور یہ اب تک تعطل کا شکار ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کا نتیجہ یہ ہے کہ جن کروڑوں لوگوں کو سستے راشن کی ضرورت ہے وہ اپنے قانونی حق سے محروم ہو رہے ہیں۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب بے روزگاری کی شرح اور مہنگائی آسمان تک جا پہنچی ہے۔ دریز اور کھیڑا نے دلیل دی ہے کہ 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر سال 2013 میں 80 کروڑ لوگ سبسڈی والے خشک راشن کی سہولیات کے اہل تھے، جبکہ آبادی میں متوقع اضافے کے ساتھ یہ تعداد 2020 میں 92.2 کروڑ تک پہنچ جانی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 195 کروڑ خاندان ایسے ہیں جن کے پاس راشن کارڈ ہیں۔ 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 737 اضلاع میں استفادہ کنندگان کی کل تعداد تقریباً 79.4 کروڑ ہے جو کہ ہمارے مقرر کردہ استفادہ کنندگان کی تعداد سے بہت کم ہے۔ سال 2020 کو چھوڑ دیں تو یہ تعداد 2013 کے حساب سے بھی بہت کم ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ غریبوں کی تعداد 2.34 کروڑ ہے، جو انتودیا انا یوجنا (اے اے وئی) کے حقدار ہیں۔ فوڈ سیکورٹی ایکٹ 75 فیصد دیہی اور 50 فیصد شہری آبادی یعنی کل آبادی کے تقریباً دو تہائی حصہ کو عوامی نظام ترسیل کے تحت سستے راشن کا حق فراہم کرتا ہے، جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو یونیورسل پی ڈی ایس کی ضرورت ہے۔
مجموعی طور پر ملک کی بات کریں تو 2020 میں تخمینہ شدہ آبادی 137.2 کروڑ تھی اور اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ کل آبادی کے 67 فیصد کو پی ڈی ایس تک رسائی حاصل ہونی چاہیے، پی ڈی ایس کی کوریج 80 کروڑ کے بجائے 92.2 کروڑ ہونی چاہیے تھی لیکن مودی حکومت نے حقوق سے محروم لوگوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت ریاستوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اپنی فہرست کو ’درست‘ کریں تاکہ اہل افراد کو شامل کیا جا سکے اور جو نااہل ہیں ان کو باہر رکھا جائے۔
سال 2013 سے لے کر اب تک خوراک کی وزارت نے ریاستوں میں تقریباً 4.7 کروڑ فرضی یا ڈوپلیکیٹ راشن کارڈ منسوخ کر دییے ہیں، یعنی تقریباً 17 کروڑ 'نااہل' مستفیدین کو باہر کیا گیا ہے اور ان کی جگہ ان لوگوں کو لے لیا گیا ہے جو سبسڈی والا راشن حاصل کرنے کے حقدار تھے۔ کچھ ریاستوں نے پی ڈی ایس سے مختلف عوامل کو جوڑ دیا ہے، جیسے کہ خاندان کی طرف سے میونسپل کارپوریشن کو ادا کردہ ٹیکس یا بجلی کے بل کی رقم۔ اس عمل میں شفافیت کا سراسر فقدان مرکزی حکومت کی نیت پر شکوک و شبہات کی بہت سی گنجائش چھوڑ دیتا ہے۔
اس طرح لوگوں کو محروم کئے جانے کی تصدیق 'وعدہ اور حقیقت' رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جو معاشرے کے نامور افراد نے 'وعدہ نہ توڑ مہم' کے تحت تیار کی تھی۔ اس سال مئی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں فوڈ سیکورٹی ایکٹ سے مستفید ہونے والوں کی تعداد کا حساب لگانے کے لیے 2011 کی آبادی کے اعداد و شمار کے استعمال میں قانونی بے ضابطگیوں کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے مہاجر مزدوروں کے معاملے میں ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے میں اپنا فیصلہ سنایا۔ اس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ 'کھانے کا حق' آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ایک بنیادی حق ہے۔
اگر اس نمبر پر نظر ثانی کی جاتی تو ریاستوں کو وقت کے ساتھ ساتھ نئے راشن کارڈ بھی جاری کرنے پڑتے لیکن فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہر ریاست میں استفادہ کرنے والوں کی تعداد تقریباً مستقل ہے۔ جھارکھنڈ کی مثال لے لیں، یہ ہندوستان کی غریب ترین ریاستوں میں سے ایک ہے اور غذائی تحفظ سے متعلق قانون سازی کو بھوک اور خوراک کی کمی کو کم کرنے کے لیے ایک بڑا پالیسی ساز ہونا چاہیے تھا لیکن ریاستی حکومت نے برسوں پہلے اس خوف سے نئے راشن کارڈ جاری کرنا بند کر دیئے ہیں، ان کی تعداد مرکز کی فراہم کردہ تعداد سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ فطرتی بات ہے کہ وہاں راشن کارڈ کی درخواستوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
ہچکچاہٹ اور تاخیر سے ہی سہی مہاراشٹرا اب بھی نئے راشن کارڈ جاری کرتا ہے لیکن سستے غلے کی دکان والوں نے اس کا الگ توڑ نکال لیا ہے۔ انہوں نے نئے راشن کارڈ ہولڈروں کو جگہ دینے کے لیے پرانے مستحقین کا کوٹہ کاٹ دیا، تاکہ تقسیم کیے گئے راشن میں کوئی فرق نہ پڑے۔ اس معاملے میں بھی کچھ مستثنیات ہیں۔ کچھ ریاستیں ایسی ہیں جو سستے غلے کی دکانوں کو مناسب راشن فراہم کرنے کے لیے اپنی جیب سے رقم فراہم کرتی ہیں۔
سبسڈی والے راشن پر انحصار کرنے والے غریبوں کو اس طرح سے محروم کر دینے کے نتائج سنگین ہوتے ہیں۔ جیسا کہ راقم الحروف نے کچھ پی ڈی ایس دکانوں کے ڈیلروں سے بات چیت میں پایا کہ وبا کے بعد سے ماہانہ راشن کوٹہ کے لیے رش بڑھ گیا ہے۔ اب زیادہ تعداد میں لوگ اپنے کوٹے کے لیے آتے ہیں۔ کچھ نئے مستفیدین جن کے کارڈ آن لائن پورٹل پر اپلوڈ نہیں ہوئے ہیں، انہیں کوٹہ حاصل نہیں ہو پاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے پاس نجی خوردہ فروشوں سے سامان خریدنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا لیکن وہ اس طرح راشن خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
کورونا کی وبا کے دو سالوں کے دوران، خاص طور پر اس وقت جب لاک ڈاؤن نافذ تھا، لاکھوں تارکین وطن مزدور اپنے گاؤں پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔ جن شہروں میں یومیہ اجرت کرتے تھے، وہاں ان کے لیے آمدنی کے ذرائع خشک ہو گئے تھے، لہذا انہیں رہائش اور خوراک کے بحران کا سامنا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر دیہی مہاجرین کے گھروں میں راشن کارڈ تھے لیکن ان ریاستوں میں جہاں وہ مزدور کے طور پر کام کر رہے تھے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ان تک راشن پہنچانے میں کافی مشکلات پیش آئیں۔
اب نرملا سیتا رمن کے ٹوئٹ پر واپس آتے ہیں۔ اکثر اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ مودی حکومت پردھان منتری غریب کلیان اَن یوجنا کو وسعت دینے پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ اس اسکیم کو ختم کرنا انہیں سیاسی طور پر مہنگا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اسے جاری رکھنے کی ایک اقتصادی قیمت بھی تو ہے! یہ اسکیم اپریل 2020 میں انتودیا اَن یوجنا کے تحت شروع کی گئی تھی تاکہ انتہائی غریبوں کو مفت کھانا فراہم کیا جا سکے۔ گزشتہ کئی سالوں سے خوراک کی قیمتیں تقریباً مستحکم رہنے کے بعد بھی غذائی/قیمت کے تحفظ کے محاذ پر یہ مودی حکومت کا اب تک کا سب سے بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ خوراک کی سیاسی معیشت انتہائی حساس ہوتی ہے: ایک غلط فیصلہ راشن پر انحصار کرنے والے لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور حکمران جماعت کو سیاسی دھچکا لگ سکتا ہے۔
دوسری طرف، فوڈ سیکورٹی کے بجٹ کی فنڈنگ کے اپنے چیلنجز ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ پی ڈی ایس کے ذریعے انتہائی رعایتی نرخوں پر خوراک فراہم کرنے کے بعد بھی غریبوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں میں غذائیت کی سطح تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ سپر پاور بننے کی خواہش رکھنے والی قوم کے لیے اسے اچھی علامت کبھی نہیں کہا جا سکتا!
(مضمون نگار جے دیپ ہاردیکر ناگپور میں مقیم صحافی اور ’راماراؤ: دی اسٹوری آف انڈیاز فارم کرائسس‘ کے مصنف ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔