’نابالغوں کے درمیان رضامندی سے جنسی تعلقات قائم کرنا جرم نہیں‘، پاکسو قانون پر کرناٹک ہائی کورٹ کا اہم تبصرہ

پاکسو ایکٹ کا مقصد بچوں کو جنسی جرائم اور جنسی استحصال سے بچانا ہے، اس کے تحت مجرم کو جرم کی سنگینی کے لحاظ سے سزا دی جاتی ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ
کرناٹک ہائی کورٹ
user

قومی آواز بیورو

بچوں کے ساتھ ہو رہے جنسی استحصال کے واقعات کے درمیان کرناٹک ہائی کورٹ نے نابالغوں کے درمیان رضامندی سے بننے والے جنسی تعلقات کو لے کر ایک انتہائی اہم فیصلہ سنایا ہے۔ دراصل کرناٹک ہائی کورٹ کے نزدیک نابالغوں کا رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات کا قائم کرنا جرم نہیں ہے۔ حالانکہ اس فیصلے کو نظیر بنایا جائے تو ملک بھر میں نابالغوں کے لیے جنسی بے راہ روی کے دروازے کھل جائیں گے۔

کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک نابالغ لڑکی سے شادی کرنے کے معاملے کی سماعت کے دوران ’پروٹیکشن آف چیلڈرن فرام سیکسوئل افینس‘ (پاکسو) قانون پر اہم تبصرہ کیا ہے۔ ’سی رگھو ورما بنام ریاست کرناٹک‘ معاملے پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ نے کہا کہ پاکسو قانون کا مقصد نابالغوں کے درمیان رضامندی سے جنسی تعلقات کو جرم بنانا نہیں ہے، بلکہ انہیں جنسی استحصال سے بچانا ہے۔


’بار اینڈ بنچ‘ کی رپورٹ کے مطابق جسٹس ہیمنت چندن گودر نے پاکسو ایکٹ پر یہ اہم تبصرہ کرتے ہوئے ایک 21 سالہ نوجوان کے خلاف مجرمانہ مقدمہ رد کر دیا۔ اس نوجوان نے ایک نابالغ لڑکی سے شادی کی تھی، جس کے بعد اس کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی)، پاکسو ایکٹ اور چائلڈ میرج پرہیبیشن ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ عدالت کے اس تبصرہ کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ پاکسو ایکٹ کے تحت کارروائی ہونے پر ملزم کے خلاف سخت دفعات لگائی جاتی ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ملزم اور نابالغ لڑکی سماج کے اس طبقے سے آتے ہیں جو معاشی اور سماجی طور پر پچھڑا ہوا ہے۔ ان کے پاس اس تعلق سے زیادہ معلومات کا فقدان ہے اور انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ اگر وہ شادی کرتے ہیں تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ عدالت کا مزید کہنا تھا کہ پاکسو قانون کا مقصد نابالغوں کے درمیان آپسی رضامندی سے جنسی تعلقات کو جرم بنانا نہیں بلکہ انہیں جنسی استحصال سے بچانا ہے۔ یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ رضامندی سے جنسی تعلقات کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔


واضح رہے کہ جس نوجوان کے خلاف پاکسو ایکٹ و دیگر قوانین کے مطابق مقدمہ درج کیا گیا تھا، اس نے ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ شادی کر لی تھی جبکہ اسے معلوم تھا کہ لڑکی نابالغ ہے۔ اس کے بعد بنگلورو پولیس نے اس کے خلاف مقدمہ درج کیا اور ملزم نے اس مقدمے کے خلاف ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے پولیس کے ذریعے درج مقدمات کو رد کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس لڑکے کا کہنا تھا کہ وہ لڑکی کے ساتھ ’ریلیشن شپ‘ میں تھا اور اس کی رضامندی سے ہی اس کے ساتھ تعلقات بنائے۔

اس کے بعد نابالغ لڑکی اور اس کے والدین نے ہائی کورٹ میں ایک مشترکہ حلف نامہ داخل کیا جس میں کہا کہ یہ شادی غلطی سے ہو گئی ہے اور وہ اس سے متعلق قوانین سے واقف نہیں ہیں۔ عدالت نے ملزم نوجوان کو فوری رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اس کے خلاف درج مقدمات کو منسوخ کر دیا۔ اس ضمن میں عدالت نے اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھا کہ نابالغ لڑکی کے یہاں بچہ پیدا ہونے کی صورت میں اس کی دیکھ بھال کے لیے باپ کا ہونا ضروری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔