لوک سبھا اسپیکر انتخاب: کانگریس نے اپنے سبھی لوک سبھا اراکین کو جاری کیا وہپ، آج رات اپوزیشن پارٹیوں کی ہوگی میٹنگ

لوک سبھا اسپیکر عہدہ کے لیے کانگریس کی طرف سے کے. سریش امیدوار بنائے گئے ہیں، ان کا مقابلہ این ڈی اے امیدوار اوم برلا سے ہے، یہ پہلا موقع ہے جب ملک میں لوک سبھا اسپیکر کے لیے انتخاب ہوگا۔

<div class="paragraphs"><p>کانگریس پارٹی / آئی اے این ایس</p></div>

کانگریس پارٹی / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

لوک سبھا اسپیکر کے عہدہ کا انتخاب کل یعنی 26 جون کی صبح 11 بجے ہونے والا ہے۔ اس کے پیش نظر کانگریس نے اپنے سبھی لوک سبھا اراکین کے نام تین سطور پر مبنی وہپ جاری کر دیا ہے۔ وہپ میں کہا گیا ہے کہ بدھ کی صبح سبھی 11 بجے سے ایوان میں موجود رہیں۔ علاوہ ازیں لوک سبھا اسپیکر انتخاب کی پالیسی تیار کرنے کے لیے انڈیا بلاک میں شامل پارٹیوں کے لیڈران آج شب دہلی میں میٹنگ کریں گے۔

ایوان میں کانگریس کے چیف وہپ کے. سریش کے ذریعہ جاری وہپ میں کہا گیا ہے کہ کل یعنی بدھ، 26 جون، 2024 کو لوک سبھا میں بہت اہم ایشو اٹھایا جائے گا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوک سبھا میں کانگریس پارتی کے سبھی اراکین سے گزارش ہے کہ وہ 26 جون 2024 کو صبح 11 بجے سے ایوان کے ملتوی ہونے تک موجود رہیں اور پارٹی کے رخ کی حمایت کریں۔


لوک سبھا اسپیکر عہدہ کے لیے سریش اپوزیشن کے امیدوار ہیں۔ ان کا مقابلہ این ڈی اے امیدوار اوم برلا سے ہے۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب ملک میں لوک سبھا اسپیکر کے لیے انتخاب ہوگا۔ کانگریس نے کہا کہ گیند اب حکومت کے پالے میں ہے کہ وہ اس ایشو پر عام اتفاق بنائے کیونکہ روایت کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ اپوزیشن کو ملنا چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ این ڈی اے کے پاس لوک سبھا اسپیکر کا انتخاب جیتنے کے لیے ضروری تعداد نظر آ رہی ہے۔ اس تعلق سے کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے کہا کہ اپوزیشن کا مشورہ تھا کہ حکومت گزشتہ روایات کے مطابق اسے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دے اور بدلے میں وہ برلا کی امیدواری کو حمایت دے گی۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ برلا کی امیدواری کو مشروط حمایت نہیں ہو سکتی، کیونکہ اسپیکر سبھی پارٹیوں کا ہوتا ہے اور ان کے نام پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔


جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت اس بھروسے پر چلتی ہے کہ برسراقتدار پارٹی کیا کہتی ہے، اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ جو کرتی ہے اس میں کتنا بھروسہ جھلکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’نان بایولوجیکل (غیر حیاتیاتی) وزیر اعظم کو 17ویں لوک سبھا (2024-2019) بغیر ڈپٹی اسپیکر کے چلانے کو ملی۔ ایسا ہونا حیرت انگیز تھا۔ 16ویں لوک سبھا (2019-2014) میں انھوں نے یہ عہدہ اپنے ایک خفیہ معاون کو دے دیا تھا۔‘‘

کانگریس جنرل سکریٹری کے مطابق منموہن سنگھ، اٹل بہاری واجپئی اور پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت کے دوران لوک سبھا کا ڈپٹی اسپیکر ایک اپوزیشن رکن پارلیمنٹ ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’انڈیا جَن بندھن کی تجویز بہت سیدھی اور آسان تھی۔ یہ لوک سبھا اسپیکر کے لیے بی جے پی امیدوار کی حمایت کرے گا، لیکن ڈپٹی اسپیکر انڈیا جَن بندھن کا ہونا چاہیے۔ پارلیمانی روایات کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ پوری طرح سے جائز تجویز تھی۔ اس کے جواب میں برسراقتدار پارٹی نے کہا کہ ابھی ہمیں اسپیکر کے لیے حمایت دیجیے اور ہم بعد میں ڈپٹی اسپیکر پر تبادلہ خیال کریں گے۔‘‘ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جئے رام رمیش کہتے ہیں کہ ’’یہ نان بایولوجیکل وزیر اعظم کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ناقابل قبول تھا۔‘‘


اس معاملے میں کانگریس لیڈر کے سی وینوگوپال اور دیپیندر ہڈا نے کہا کہ گیند اب بھی حکومت کے پالے میں ہے جو اپوزیشن کو ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دے سکتی ہے۔ ہڈا کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ اپوزیشن کو دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اپوزیشن اب بھی برلا کی حمایت میں انتخاب سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔