کانگریس نے پٹرول-ڈیزل سے ’مودی ٹیکس‘ واپس لینے کا کیا مطالبہ!
کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم گزشتہ 6.8 سال میں لگائے گئے اس اضافی ’مودی ٹیکس‘ کو فوراً واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے درمیان کانگریس نے منگل کے روز پٹرولیم مصنوعات پر لگنے والے اضافی ٹیکسز کو فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ چھ سالوں میں حکومت نے اضافی ٹیکسز کے ذریعہ سے 20 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی کمائی کی ہے، اور دوسری طرف عام آدمی اس سے بری طرح متاثر ہے۔ اضافی ٹیکسز کو ’مودی ٹیکس‘ قرار دیتے ہوئے کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ہم گزشتہ 6.8 سالوں میں لگائے گئے ان اضافی مودی ٹیکس کو فوراً واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ پٹرول کی قیمت 61.92 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 47.51 روپے فی لیٹر تک کم کر دے گا۔ ہر عام ہندوستانی اس کی راحت کا فوری حقدار ہے۔‘‘
پون کھیڑا نے کہا کہ ’’گزشتہ 6.8 سالوں میں حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر اضافی پروڈکشن ٹیکس لگا کر 20 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی کمائی کی ہے۔ مئی 2014 میں بین الاقوامی خام تیل کی قیمت 108 ڈالر فی بیرل تھی اور دہلی میں پٹرول 71.51 روپے فی لیٹر پر، اور ڈیزل 57.28 روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا تھا۔‘‘
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پون کھیڑا نے کہا کہ ’’یکم فروری کو بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمت 54.41 ڈالر فی بیرل تھی اور پھر بھی آج دہلی میں پٹرول کی قیمت 89.29 روپے فی لیٹر، جب کہ ڈیزل کی قیمت 79.70 روپے فی لیٹر ہے۔ گزشتہ چھ سالوں میں اضافی پروڈکٹ ٹیکس کی شکل میں مودی ٹیکس کو پٹرول و ڈیزل کے لیے بالترتیب بڑھا کر فی لیٹر 23.78 روپے اور ڈیزل پر 28.37 روپے کر دیا گیا ہے۔ یہ ڈیزل پر فی لیٹر 820 فیصد اور پٹرول پر 258 فیصد کا اضافہ ہے۔‘‘
کانگریس ترجمان نے نامہ نگاروں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ہم کسی بھی شعبہ میں حکومت کے 20 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا نتیجہ نہیں دیکھ رہے ہیں، چاہے وہ زرعی شعبہ ہو، ایم ایس ایم ای ہو، یا سرکاری ملازمین یا کوئی دیگر شعبہ ہو۔‘‘ انھوں نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی کے ’ایکو سسٹم‘ نے ہمیشہ لوگوں کو جذباتی طور سے اپنے قبضے میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کھیڑا نے مزید کہا کہ ’’وہ کون سے جذبات ہیں جن کے ذریعہ سے وہ ہندوستان کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟ غصہ، نفرت، خوف! اس کے لیے وہ قدیم داستانوں سے، تاریخ کی اپنی کتاب سے، عالمی انعقاد سے قرض لیں گے، جس کا ہمارے ساتھ کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ ویلن بناتے رہیں گے، جن کے خلاف ہماری اجتماعی جذبات کو ہدایت دی جا سکتی ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔