کالیجیم سسٹم ختم کرنے والی عرضداشت پر سماعت کرنے سے چیف جسٹس آف انڈیا نے کیا انکار
17 اکتوبر 2015 کو پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے این جے اے سی ایکٹ اور 99 ویں آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری کے کالیجیم سسٹم کو ختم کرنے کی درخواست والی عرضداشت پر غور کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے ایڈووکیٹ میتھیوز نیدومپرا کی اس درخواست پر غور کیا کہ کالیجیم سسٹم کو ختم کرنے کی عرضداشت کو سماعت کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہئے۔
ایڈووکیٹ میتھیوز نیدومپرا نے عدالت سے کہا کہ میں نے کئی بار اس کا ذکر کیا ہے، رجسٹرار نے اسے مسترد کر دیا ہے اور میری درخواست درج نہیں کر رہا ہے۔ سی جے آئی نے کہا کہ رجسٹرار (سماعت کے لیے فہرست میں شامل کرنے سے متعلق) کا یہ موقف ہے کہ ایک بار جب آئینی بنچ کسی چیز پر اپنا فیصلہ دے دیتا ہے تو آرٹیکل 32 کے تحت درخواست سماعت کے قابل نہیں ہوتی ہے۔ مگر رجسٹرار کے حکم کے خلاف دیگر متبادل بھی ہیں۔
وکلا کا کہنا تھا کہ قومی عدالتی تقرری کمیشن (این جے اے سی) کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست چیمبر میں مسترد کر دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا یہ ادارے کی ساکھ کا سوال ہے۔ کالیجیم سسٹم کو ختم کرنا ہوگا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’میں معافی چاہتا ہوں‘۔ پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے 17 اکتوبر 2015 کو این جے اے سی ایکٹ اور 99 ویں آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ بنچ نے کہا تھا کہ آزاد عدلیہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) حکومت نے کالیجیم سسٹم کو ہٹانے کے لیے این جے اے سی بل پاس کیا تھا۔ اس نظام کے تحت ججوں کا ایک گروپ فیصلہ کرتا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کون ہوں گے۔ اس کے لیے این جے اے سی نے 6 ممبران پر مشتمل ایک باڈی بنانے کی تجویز دی تھی جس میں سی جے آئی اور سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین جج، مرکزی وزیر قانون و انصاف اور دو نامور افراد کو ممبر بنایا جانا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔