منی پور ویڈیو معاملہ: 'ابھی تک متاثرہ خواتین تک نہیں پہنچ سکی سرکاری ٹیم' سپریم کورٹ میں مرکز کا بیان
منی پور کی جن برہنہ خواتین کی ویڈیو گزشتہ دنوں سامنے آئی تھی، ان سے ابھی تک نہ تو ریاستی حکومت اور نہ ہی مرکزی حکومت کی ٹیم کا رابطہ ہو سکا ہے، یہ جانکاری مرکزی وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں دی ہے۔
مرکزی حکومت یا ریاستی حکومت منی پور کی ان خواتین سے ابھی تک رابطہ نہیں کر سکی ہے، جنھیں برہنہ کر کے پریڈ کرانے کی ویڈیو نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ یہ بات مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں 28 جولائی کو داخل ایک حلف نامہ میں کہی ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ "سول سوسائٹی کے احتجاج کے سبب ریاستی حکومت کے ذریعہ تشکیل ٹیم کے اراکین ان خواتین سے نہیں مل پا رہے ہیں۔ اس ٹیم میں سبھی خواتین ہیں، جن میں دو سائیکاٹرسٹ اور ایک سائیکولوجسٹ شامل ہیں۔"
واضح رہے کہ 19 جولائی کو سامنے آئی اس ویڈیو نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مرکز اور منی پور حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد تقریباً ڈھائی مہینے بعد منی پور کو لے کر کوئی بیان دیا تھا۔ حالانکہ انھوں نے پارلیمنٹ کے باہر غیر رسمی بات چیت میں اس حادثہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے تکلیف دہ اور شرمندہ کرنے والا بتایا تھا، لیکن پارلیمنٹ میں اس بات پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ اسی کے بعد سے اپوزیشن لگاتار منی پور معاملے پر وزیر اعظم سے پارلیمنٹ میں بیان دینے کا مطالبہ کر رہا ہے اور لوک سبھا میں اپوزیشن نے مودی حکومت کے کلاف تحریک عدم اعتماد بھی پیش کیا ہے، جس پر ابھی بحث ہونی باقی ہے۔
ویڈیو سامنے آنے کے بعد 20 جولائی کو چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ نے اس کا نوٹس لیا تھا اور مرکزی حکومت سے منی پور کے حالات اور اس واقعہ کے تعلق سے اٹھائے گئے اقدام پر جواب طلب کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ مرکز اور منی پور حکومت یہ یقینی کرے کہ اس طرح کے واقعات دہرائے نہ جائیں۔ اسی کے جواب میں گزشتہ ہفتہ 28 جولائی کو مرکزی داخلہ سکریٹری اجئے کمار بھلّا کی طرف سے داخل حلف نامہ میں حکومت نے کہا ہے کہ 4 مئی جیسے حادثات دوبارہ نہ ہوں اس کے لیے مناسب قدم اٹھائے گئے ہیں اور ایسے معاملوں کو سیدھے منی پور کے پولیس ڈائریکٹر جنرل دیکھیں گے۔ وزارت داخلہ نے حلف نامہ کے ذریعہ سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ اس معاملے کی سی بی آئی جانچ کے حکم دے دیے گئے ہیں۔ مرکز نے اس معاملے کی سماعت منی پور سے باہر کرائے جانے کی بھی سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے۔
سب سے حیرت انگیز بات مرکزی وزارت داخلہ نے عدالت سے جو کہی ہے، وہ یہ ہے کہ نہ تو مرکز اور نہ ہی ریاستی حکومت اب تک متاثرہ خواتین سے رابطہ کر سکی ہے۔ وزارت داخلہ نے حلف نامہ میں کہا کہ متاثرین کی مدد کے لیے چراچندپور ضلع اسپتال کے دو سائیکٹرسٹ اور ایک سائیکولوجسٹ سمیت پوری طرح سے خواتین پر مبنی ٹیم تشکیل دی گئی ہے، لیکن حلف نامہ داخل کرنے کے وقت تک ریاستی افسران 'چراچندپور میں شہری سماجی تنظیموں (سول سوسائٹی) کے احتجاج' کے سبب متاثرین تک جسمانی یا ٹیلی فونک طور سے وہاں نہیں پہنچ سکے ہیں، جہاں حادثہ کے بعد متاثرہ اور ان کے کنبہ نے پناہ لی ہے۔
یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد کچھ صحافیوں نے ان متاثرہ خواتین اور ان کے اہل خانہ سے بات کی تھی۔ اگر صحافی یا سماجی کارکن ان خواتین تک پہنچ سکتے ہیں، تو پھر ضلع انتظامیہ یا ریاستی حکومت، حتیٰ کہ مرکزی حکومت کیوں نہیں ان تک پہنچ سکتی۔ مزید ایک بات ذہن نشیں کرنا لازمی ہے کہ جس سول سوسائٹی کے احتجاج کی بات مرکزی حکومت کر رہی ہے، اسی سول سوسائٹی سے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے منی پور میں امن قائم کرنے میں مدد کی اپیل کی۔ اس تعلق سے انھوں نے ایک ٹوئٹ کیا تھا جو نیچے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس درمیان سپریم کورٹ میں پیر کو منی پور ویڈیو معاملے پر سماعت ہوئی ہے۔ متاثرین کی طرف سے معاملے کی سی بی آئی جانچ کرانے کی مخالفت کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکز سے سیدھا سوال پوچھا کہ منی پور میں اس طرح کے واقعات پر کتنی ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ متاثرین کی طرف سے پیش سینئر وکیل کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ متاثرین اس معاملے کی سی بی آئی جانچ نہیں چاہتیں اور معاملے کی سماعت آسام میں کرائے جانے کے بھی خلاف ہیں۔ کپل سبل نے کہا کہ متاثرین چاہتے ہیں کہ اس معاملے کی جانچ سی بی آئی کی جگہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایس آئی ٹی سے کرائی جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔