مرکز پبلک سیکٹر کے بینکوں کو فروخت کرنے کی تیاری کر رہا ہے: کانگریس
سپریہ سری نیت نے یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں پبلک سیکٹر کے بینکوں کو سماجی انصاف کے نمائندے بتاتے ہوئے کہا کہ آج یہ بینک دور دراز علاقوں میں لوگوں کو خدمات فراہم کرارہے ہیں۔
نئی دہلی: اندھا دھند پرائیویٹائزیشن کو معیشت کے لیے خطرناک بتاتے ہوئے کانگریس نے منگل کو کہا کہ مرکزی حکومت اب پبلک سیکٹر کے بینکوں کی بھی نجکاری کرکے ذمہ داری سے نجات پانا چاہتی ہے اور اس کی پالیسی ملک کے لیے مہلک ثابت ہوگی۔ کانگریس کی ترجمان سپریہ سری نیت نے یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں پبلک سیکٹر کے بینکوں کو سماجی انصاف کے نمائندے بتاتے ہوئے کہا کہ آج یہ بینک دور دراز علاقوں میں لوگوں کو خدمات فراہم کرارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کی تیاریاں زوروں پر
سپریہ سری نیت نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی ایک دور اندیش لیڈر تھیں اور اسی وجہ سے انہوں نے 1969 میں بینکوں کو قومیانے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ انہوں نے نہ صرف چند نجی قرض دہندگان کی اجارہ داری کو توڑا بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ بینکنگ خدمات ملک کے آخری سرے تک پہنچیں۔ سرکاری بینک زراعت اور چھوٹی صنعتوں کو ترجیح دیتے ہیں جس سے نجی بینک کتراتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ان بینکوں نے پسماندہ علاقوں کی ترقی میں مدد کی ہے اور ملک کے دور دراز علاقوں میں شاخیں کھولی ہیں جہاں کوئی بھی نجی بینک برانچ کھولنے کی ہمت نہیں کرتا۔ پبلک سیکٹر کے بینک مالیاتی ادارے نہیں بلکہ حقیقت میں سماجی بااختیار بنانے کے واقعی طاقتور ذریعہ بھی ہیں۔
انہوں نے حکومت پر گزشتہ 75 سالوں میں اسٹریٹجک اہمیت کے حامل اثاثوں کی اندھا دھند فروخت اور منافع کمانے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس نے تشخیص کی تقریباً ایک تہائی قیمت پر 18 ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصان کے ساتھ ایل آئی سی کے آئی پی او کو لا کر ملک کی معیشت کو تبادہ کرنے کا کام کیا ہے۔ کانگریس کی ترجمان نے کہا کہ اسی طرح حکومت نے کانگریس کی سخت تنقید کے خوف سے انڈیا-کونکور کی فروخت روک دی۔ اس کے لیے مودی حکومت کسانوں سے رعایتی شرح پر خریدی گئی ریلوے کی زمین تجارتی استعمال کے لیے نجی پارٹی کو دینے کا انتظام کر رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس یوسیل ٹیکس کے ذریعے حکومت کا اصل مقصد نجی کمپنیوں کو قبضہ کرنے کے لیے زمین فراہم کرنا تھا، اس لیے زمین کی قیمت کے مسائل پر تین پی ایس یو کی نجکاری میں تاخیر ہوئی۔ کونکور کے پاس ریلوے اسٹیشنوں کے ارد گرد زمین ہے، شپنگ کارپوریشن آف انڈیا کے پاس مہاراشٹر اور خاص طور پر ممبئی میں زمین ہے جبکہ بھارت ارتھ موورز کے پاس مغربی بنگال اور کرناٹک میں زمین ہے۔ ان منصوبوں اور ان کے پاس موجود لاکھوں ایکڑ اراضی کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ مودی کے منتخب کردہ چند کرونی کپیٹلسٹ دوستوں کو دے دیں۔
ترجمان نے کہا کہ حکومت دوہرا رویہ اپنا کر عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگنی ویروں کے لیے سروس کی تکمیل کے بعد پی ایس یو میں نوکریوں کا وعدہ کیا جا رہا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم اگنی ویروں کی سروس کے چار سال مکمل ہونے پر پی ایس یو میں 10 فیصد کوٹہ دینے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف پی ایس یو کی فروخت کو تیز کر رہے ہیں۔ حکومت نے 41 آرڈیننس فیکٹریاں فروخت کر دی ہیں اور ڈی آر ڈی او کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ بھارت الیکٹریکل لمیٹڈ کے علاوہ بھارت ارتھ موورز جیسے بڑے اور اسٹریٹجک دفاعی پی ایس یو کو بھی فروخت کیا جا رہا ہے۔ ان انٹر پرائیزز کا جدید ہندوستان کی تعمیر میں اہم رول ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔