دہلی: تغلق آباد میں آشیانوں پر بجلی بن کر گرا بلڈوزر، نم آنکھوں کے درمیان پوری بستی ملبہ میں تبدیل

لوگ پریشانی کے عالم میں ملبے میں دبا اپنا سامان چن رہے ہیں، کوئی اپنے گھر کی اینٹیں سمیٹ رہا ہے تو کوئی خون پسینے کی کمائی سے بنے گھر پر آنسو بہا رہا ہے، اور کوئی اس فکر میں مبتلا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔

<div class="paragraphs"><p>بلڈوزر کارروائی کے بعد ملبہ میں تبدیل کئی گھر</p></div>

بلڈوزر کارروائی کے بعد ملبہ میں تبدیل کئی گھر

user

محمد تسلیم

نئی دہلی: جنوبی دہلی کے مہرولی اور بدر پور روڈ پر تغلق آباد قلعہ کی حدود کے اندر اور باہر بنی کالونیوں کو گزشتہ روز بلڈوزر سے منہدم کر دیا گیا۔ یہاں زیادہ تر بنگال، بہار اور یوپی کا وہ مزدور طبقہ آباد تھا جو دہلی میں روزی روٹی کی تلاش میں آیا اور یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ لیکن اب یہ سبھی بے آسرا ہو گئے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور غمگسار کوئی نہیں۔

محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کی جانب سے بتائی گئی 1247 جائیدادوں کے خلاف کارروائی دو دن پہلے شروع ہوئی تھی۔ عدالت کی ہدایت پر اے ایس آئی، ضلع انتظامیہ اور ایم سی ڈی کی مشترکہ کارروائی میں غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کیا گیا۔ ان کالونیوں میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ہم برسوں سے رہ رہے ہیں اور بجلی کا کنکشن ہے تو پھر یہ کارروائی کیوں؟ کچھ رہائشیوں نے کہا کہ ہم یہیں پیدا ہوئے اور برسوں پہلے بنے گھر میں رہتے تھے، لیکن ایک ہی دن میں بے گھر کر دیا گیا۔ اب ہم کہاں جائیں کس سے اپنا درد بیان کریں۔

دہلی: تغلق آباد میں آشیانوں پر بجلی بن کر گرا بلڈوزر، نم آنکھوں کے درمیان پوری بستی ملبہ میں تبدیل

جس جگہ کالونی آباد تھی وہاں اب ملبہ ہی ملبہ دکھائی دے رہا ہے۔ گھروں کو پوری طرح مسمار کر دیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کسی قدرتی آفت نے لوگوں کے آباد گھروں کو اپنی گرفت میں لے کر اجاڑ دیا ہو۔ اپنے خون پسینہ کی کمائی سے جگہ خرید کر تنکا تنکا جوڑ کر جو گھر مزدوروں نے بنائے تھے، وہ اب تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بلڈوزر کاروائی کا چلن سب سے زیادہ اس ملک میں ہو رہا ہے جس ملک کے وزیر اعظم ’جہاں جھگی، وہاں مکان‘ بنانے کی بات کرتے ہیں۔ مشہور شاعر بشیر بدر کا یہ شعر بلڈوزر کی کاروائی پر صادق آتا ہے:

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

بہر کیف ’قومی آواز‘ کے نمائندہ نے جائے وقوع پر پہنچ کر وہاں کے لوگوں سے بات کی اور ان کے حالات کا جائزہ لیا۔ لوگ پریشانی کے عالم میں ملبے میں دبا اپنا سامان چن چن کر جمع کر رہے ہیں۔ کوئی اپنے گھر کی اینٹوں کو سمیٹ رہا ہے تو کوئی اپنے خون پسینے کی کمائی سے بنے گھر پر آنسو بہا رہا ہے، اور کوئی اس فکر میں مبتلا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ ناگو بیگم نے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پانچ برس قبل اس بستی میں 8 ہزار روپے گز کے حساب سے 80 گز زمین قسطوں پر لی تھی اور زمین لینے کے بعد ہم نے اپنا مکان محنت مزدوری کر کے بنایا تھا۔ ناگو اپنا دربیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ہم نے اس زمین کے پیسے دیے ہیں۔ جب یہاں کالونی بن رہی تھی تب کاروائی کیوں نہیں ہوئی؟ جو ڈیلر تھے وہ پیسہ لے کر چلے گئے۔ اب ہم کہاں جائیں، ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں جن کی کفالت ہماری ذمہ داری ہے، اور گھر نہ ہونے کی وجہ سے اب ان کی تعلیم بھی متاثر ہوگی۔‘‘


24 گھنٹے محنت مزدوری کر کے اپنا گھر بنانے والی سنیتا نے بھی اپنا درد بیان کیا۔ انھوں نے نم آنکھوں سے کہا کہ جنوری ماہ میں ہمیں نوٹس دیا گیا تھا لیکن اس پر روک لگا دی گئی تھی اور ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ یہاں کچھ بھی نہیں توڑا جائے گا۔ لیکن گزشتہ روز یہاں اچانک تقریباً 12 بلڈوزر کے ساتھ پولیس فورس آئی اور پوری بستی کو توڑ دیا۔ ستم ظریفی یہ کہ جب یہاں بلڈوزر چل رہا تھا تب میں اپنی نوکری پر تھی اور گھر میں جو سامان تھا وہ بھی نہیں نکال پائی۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ سنیتا کہتی ہیں کہ ’’پہلے میں نے زمین خرید کر گھر بنایا، اور گھر میں رہنے کے لیے الماری، بیڈ، ٹی وی، فریج، برتن وغیرہ خریدے۔ لیکن اب نہ گھر رہا، نہ ہی سامان۔ ہم لوگ پوری طرح سڑک پر آ گئے ہیں۔‘‘ سنیتا نے سرکار سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں دوسری جگہ گھر دیا جائے تاکہ ہم اپنی زندگی گزار سکیں۔‘‘

پوری بستی میں رہنے والے لوگوں کی ایک ہی جیسی کہانی ہے۔ بے گھر ہوئے لوگ جہاں ایک جانب بلڈوزر کی کاروائی کا شکار ہوئے ہیں وہیں دوسری جانب گھر کا سامان چوری ہونے سے بھی وہ پریشان ہیں۔ بستی میں ہی رہنے والے پردیپ نامی شخص نے بتایا کہ وہ بنگال کا رہنے والا ہے اور گزشتہ کچھ سالوں سے یہیں رہتا ہے۔ گزشتہ روز ہوئی بلڈوزر کاروائی نے اس کی چائے کی دکان کو بھی توڑ دیا ہے۔ ایک تو سر پر سے چھت گئی، دوسری طرف پیٹ پر بھی لات مار دی گئی ہے۔

دہلی: تغلق آباد میں آشیانوں پر بجلی بن کر گرا بلڈوزر، نم آنکھوں کے درمیان پوری بستی ملبہ میں تبدیل

چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی ماں ساجدہ بھی گھر توڑے جانے سے رنجیدہ ہے۔ انھوں نے دبے لہجہ میں کہا کہ ’’آج ہم بے گھر ہیں، ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایک گھر جو ہم نے بنایا تھا وہ اجاڑ دیا گیا ہے۔ بارش کا موسم ہے، بھیگنے سے بچوں کی طبیت خراب ہو گئی ہے۔ سب کچھ اتنی تیزی سے کیا گیا کہ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کریں۔ رات میں محکمہ کے لوگ آئے اور گھر خالی کرنے کو کہہ گئے، اور صبح بلڈوزر چلا دیا گیا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔