کرناٹک: تمام مندروں کو مسلم دکانداروں سے خالی کرائے گی بی جے پی حکومت! ذرائع

رپورٹ کے مطابق ریاستی حکومت پہلے ہی اسمبلی کے ایوان سے اعلان کر چکی ہے کہ غیر ہندوؤں کے لیے مندر کے احاطے اور مذہبی میلوں میں اپنا کاروبار کرنے کا کوئی التزام نہیں ہے۔

بی جے پی کے پرچم / آئی اے این ایس
بی جے پی کے پرچم / آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

بنگلورو: ہندوتوا حامی گروپوں کی جانب سے مسلم دکانداروں پر پابندی عائد کئے جانے کے اعلان کے بعد ریاست میں ہو رہے ہنگامہ کے درمیان برسراقتدار بی جے پی کرناٹک میں مسلم دکانداروں سے مندروں کے احاطوں کو پوری طرح خالی کرانے کے لئے تیار ہے۔ خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس نے ذرائع کے حوالہ سے یہ خبر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی حکومت پہلے ہی اسمبلی کے ایوان سے اعلان کر چکی ہے کہ غیر ہندوؤں کے لیے مندر کے احاطے اور مذہبی میلوں میں اپنا کاروبار کرنے کا کوئی التزام نہیں ہے۔

حکومت ریاست میں 30 ہزار سے زیادہ مندروں کا انتظام کرنے والے محکمہ مزرائی کے توسط سے اس اصول کو نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ محکمہ مزرائی کے ذرائع نے کہا ہے کہ محکمہ نے مسلم دکانداروں کو مندروں کے احاطوں میں واقع دکانوں کی نیلامی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دینے کے حوالہ سے واضح ہدایت دی ہے۔ نیز، یہ اقدام سابق وزیر ایس ایم کرشنا کی مدت کار میں بنائے گئے قانون کے مطابق درست ہیں۔


ذرائع کے مطابق نیلامی کے بعد دکانوں کو لیز پر بھی مسلمانوں کو نہیں دیا جا سکتا۔ مسلم وینڈر کو ذیلی لیز پر دکان کئے جانے کا انکشاف ہونے پر محکمہ نے لیز کے معاہدہ کو معطل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ رہنما ہدایات کی خلاف ورزی پر ایگزیکٹو آفیسر کو معطل کرنے کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے۔ محکمہ مزرائی اس سلسلے میں مشہور کڈو ملیشور مندر اور کاشی وشواناتھ مندر سمیت بنگلورو کے مختلف مندروں میں واقع 48 دکانوں کی نیلامی کے لئے نوٹس جاری کرنے کے لیے تیار ہے۔

ہندو مذہبی ادارے اور خیراتی اوقاف ایکٹ 2002 کے مطابق، غیر ہندوؤں کے لیے مندر کے احاطے میں اپنا کاروبار کرنے کا کوئی التزام نہیں ہے۔ رہنما ہدایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیلامی میں دکانیں لینے والے شخص کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔


اگرچہ یہ رہنما ہدایات 2002 سے موجود ہیں لیکن جن حالات میں کرناٹک میں حکمراں بی جے پی حکومت ان پر عمل درآمد کر رہی ہے اس سے نیا تنازعہ جنم لے رہا ہے۔ اپوزیشن کانگریس کا دعویٰ ہے کہ ایسا 2023 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے ہندو ووٹوں کے پولرائزیشن کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔