بجنور: بن گوجر خاندانوں پر آدم خور باگھ کا خطرہ، گلدار کے بعد ایک نئی دہشت!
بجنور کے سرحدی علاقے گلدار کی دہشت سے نبرد آزما تھے لیکن اب باگھ اور تیندوے کی آمد نے ان کی زندگی دہشت میں ڈال دی ہے۔ باگھ کے ذریعے ایک لڑکی کو اٹھا لے جانے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے
بجنور اور ہریدوار کے سرحدی علاقوں سے باگھ (ٹائیگر) اور گلدار (لیپرڈ) کی دہشت کسی صورت ختم نہیں ہو رہی ہے۔ پیر کو شیر کے ہاتھوں اغوا ہونے والی 20 سالہ لڑکی کی مسخ شدہ لاش برآمد کر لی گئی ہے۔ بجنور اور ہریدوار کی سرحد پر واقع امان گڑھ رینج میں پیر کو ایک شیر لڑکی صبورہ کو گلے سے پکڑ کر جنگل میں لے گیا تھا۔ یہی نہیں اسی علاقے میں ایک 55 سالہ کسان کی بھی خون آلود مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کا خیال ہے کہ کسان کی موت گلدار کے حملے سے ہوئی ہے۔ گلدار شیر اور باگھ کے ہی خاندان کا ایک رکن ہے جو درختوں پر بہت آسانی سے چڑھ سکتا ہے۔ گلدار تندوے کی ہی ایک قسم ہے صرف ان پر پائے جانے والے نشانات سے ان کی شناخت ہوتی ہے۔
باگھ کی دہشت کے باعث امان گڑھ رینج کے ریہڑ اور افضل گڑھ میں واقع 105 دیہات حساس قرار دئے گئے ہیں۔ بن گوجر (ون گرجر) ایک ایسا طبقہ ہے جو انتہائی مشکل حالات میں جنگلوں میں رہتا ہے اور اس کے لوگ قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ ساری رات آگ جلا کر جاگتے رہتے ہیں۔ انہیں خشک لکڑی کے لیے اپنی آبادی کو چھوڑ کر گھنے جنگل جانا پڑتا ہے اور وہاں شیر انسانوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔
امان گڑھ سے تعلق رکھنے والی لڑکی صبورہ کی والدہ حسن بی بی باگھ کے حملے کی عینی شاہد ہیں۔ وہ اس انتہائی ہولناک واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ پتے اور چارہ لینے جنگل گئی تھی۔ وہ درخت پر چڑھ کر پتے کاٹ رہی تھی اور نیچے اس کی بیٹی صبورہ عرف دل بی بی انہیں جمع کر رہی تھی۔ یکایک جھاڑیوں سے ایک باگھ نمودار ہوا اور ان کی بیٹی کو گلے سے پکڑ کر لے گیا۔ حسن بی بی کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت شور مچایا لیکن جب تک کوئی آتا باگھ بہت دور چلا گیا۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے مل کر تلاش کیا تو صبورہ کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔
دل بی بی کے والد موسم علی عرف نکّا بتاتے ہیں، ’’دل بی بی کی شادی 10 دن بعد طے پائی تھی۔ اس کی شادی ہریدوار کی گوجر بستی میں طے تھی لیکن یہ ہماری قسمت میں نہیں تھا۔‘‘
امان گڑھ علاقے کی فاریسٹ آفیسر خوشبو اپادھیائے نے کہا کہ امان گڑھ کے جھول کھیتے میں کچھ بن گوجر جانور پال کر اور دودھ بیچ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں اور اس علاقہ میں گلدار ایک سال کے اندر 21 لوگوں کی جان لے چکا ہے۔ لیکن یہ واقعہ مزید خطرناک ہے کیونکہ اس بار باگھ کی موجودگی ثابت ہو چکی ہے۔
خوشبو بتاتی ہیں کہ گزشتہ سال 29 ایسے گلداروں کو پکڑا گیا ہے جو آبادی میں آ گئے تھے، جبکہ کسانوں کا سامنا ہونے کے بعد 12 گلدار مارے گئے۔ 105 دیہاتوں کو حساس قرار دیا گیا ہے تاہم سب سے زیادہ تشویشناک بات باگھ سے لاحق نیا خطرہ ہے۔ اب تک 22 دیہاتوں کو باگھ کے حوالے سے الرٹ کر دیا گیا ہے۔
گاؤں والے گلدار سے زیادہ باگھ سے دہشت میں ہیں۔ امان گڑھ کے محمد شفیع کہتے ہیں کہ باگھ اور گلدار میں سب سے بڑا فرق طاقت کا ہوتا ہے۔ باگھ بہت طاقتور ہے۔ وہ نوجوان کو گردن کے سہارے پکڑ کر جنگل میں لے جا سکتا ہے۔ اب تک اس علاقہ میں میں 400 گلدار خطرہ تھے اور اب 32 باگھوں کی موجودگی سے شدید خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔ یہاں آباد گوجروں کو فاریسٹ ایکٹ 2006 کے تحت دوسری جگہ منتقل کیا جانا چاہئے۔ دراصل امان گڑھ کا علاقہ جنگلی جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں 200 سے زائد خاندان رہتے ہیں۔ اس علاقے میں ہاتھی، ریچھ، باگھ اور تیندوے بڑی تعداد میں دیکھے جا رہے ہیں۔
یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ باگھ گاؤں والوں تک پہنچ رہے ہیں۔ کاربیٹ ریزرو پارک کے وارڈن امیت گواسکوٹی کا کہنا ہے کہ کاربیٹ پارک کا فاصلہ اس جگہ سے ڈیڑھ کلومیٹر ہے جہاں سے لڑکی کو باگھ اٹھا کر لے گیا تھا۔ اگر یہاں سے باگھ وہاں پہنچ گئے ہیں تو یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ ٹائیگر ریزرو کے ڈپٹی ڈائریکٹر دیگانتھ نائک کا کہنا ہے کہ اب وہ سرحدوں پر کیمرے لگا رہے ہیں کیونکہ اگر باگھ گاؤں والوں کے درمیان جا رہے ہیں تو مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔
دریں اثنا، گلدار اور باگھ کے خوف کے درمیان تندوا بھی منظر عام پر آیا ہے۔ بجنور کی سرحد سے متصل ادھم سنگھ نگر ضلع کے نانک متا علاقے میں چارہ کاٹنے گئی خاتون کے سامنے تیندوے نے اس کے چار سالہ بیٹے کو مار ڈالا۔ اگرچہ ڈی ایف او امن کمار ساری ذمہ داری عوام پر ڈال رہے ہیں لیکن وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں باگھ کے آدم خور ہونے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔