بھومی پوجن: بابری مسجد پر فیصلہ سنانے والے چیف جسٹس گگوئی اور ان کی راجیہ سبھا کی کرسی!

سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کے دور میں یوں تو کئی اہم فیصلے لئے گئے لیکن بابری مسجد کا فیصلہ کافی حساس اور اہمیت کا حامل ہے اور اس فیصلے کو لے کر کافی سوالات بھی کھڑے ہوئے

فائل تصویر، سوشل میڈیا
فائل تصویر، سوشل میڈیا
user

عمران

ایودھیا واقع بابری مسجد تنازعہ پر فیصلہ سنانے والے ملک کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی اب راجیہ سبھا کے رکن بن چکے ہیں۔ بابری مسجد کے علاوہ گگوئی کے دور میں رافیل معاملہ، آسام میں این آر سی معاملہ اور چیف جسٹس کو آر ٹی آئی میں رکھنے جیسے اہم فیصلے بھی لئے گئے۔ حکومت کی طرف سے رنجن گگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت کے لئے نامزد کیا جانا اور ان کا اس کو خوشی سے قبول کر لینا کئی سوالات کو جنم دے گیا ور ملک کے انصاف پسند لوگ حیران رہ گئے۔

ایودھیا میں حکومت کی طرف سے شاندار تقریب کا انعقاد کر کے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کے لئے وزیر اعظم مودی کے ذریعے بھومی پوجن کرنے جانے کے درمیان کچھ ایسے حقائق پر غور کرنا نہایت ہی ضروری ہے جن کا وقتاً فوقتاً انکشاف ہوتا رہا ہے اور جن پر لوگوں نے حیرت کا اظہار بھی کیا۔ بابری مسجد کا فیصلہ سنانے والے چیف جسٹس رنجن گگوئی کا راجیہ سبھا کا رکن بننا بھی ایک عجیب و غریب واقعہ تھا۔

خیال رہے کہ رنجن گگوئی گزشتہ سال 17 نومبر کو ریٹائر ہوئے تھے۔ ریٹائرمنٹ سے ٹھیک پہلے انہوں نے ایک لمبے وقت سے زیر التوا بابری مسجد تنازعہ کا فیصلہ سنایا تھا اور رام مندر تعمیر کے لئے راستہ صاف کیا تھا۔ اس فیصلہ پرکئی حلقوں کی جانب سے سوال بھی کھڑے ہوئے تھے۔


رنجن گگوئی کی قیادت والی بینچ نے بابری مسجد پر فیصلہ سناتے ہوئے مانا تھا کہ مسجد کو کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنایا گیا، مسجد توڑنے کے عمل کو بھی مجرمانہ قرار دیا گیا، تاہم، ایودھیا کی متنازع زمین مندر کے نام کرنے کا فیصلہ سنایا گیا۔ اس فیصلہ نے تو لوگوں کو حیرت میں ڈالا ہی تھا، اس کے بعد جب گگوئی کو راجیہ سبھا میں بھیجنے کا فیصلہ حکومت کی جانب سے لیا گیا تو لوگ حیران رہ گئے۔

واضح رہے کہ رنجن گگوئی کی قیادت والی بنچ نے ہی رافیل جہاز سودے معاملہ میں مودی حکومت کو کلین چٹ دی تھی اور کانگریس رہنما راہل گاندھی کو سپریم کورٹ کے بیان کو غلط طرح سے پیش کرنے کے لئے انتباہ کیا تھا۔ اس کے بعد جب پورے ملک میں جس این آر سی کو لے کر ہنگامہ برپا ہوا اور دہلی میں فساد تک بھڑک اٹھے اس کی شروعات آسام میں ہوئی تھی اور اس این آر سی کی نگرانی جسٹس گگوئی کی قیادت میں ہی ہوئی تھی۔


رنجن گگوئی سپریم کورٹ کے ان سینئر چار ججوں میں بھی شامل تھے جنہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے کام کرنے کے طریقوں پر سوال اٹھائے تھے اور ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے ججوں نے پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ کے کام کاج پر سوال اٹھائے تھے۔

ملک کے چیف جسٹس بننے کے بعد رنجن گگوئی تنازعات کا بھی شکار رہے۔ ان پر سال 2019 میں سپریم کورٹ کی ایک خاتون ملازم نے جسمانی استحصال کا الزام لگایا تھا تاہم جسٹس بوبڈے کی قیادت میں بنی کمیٹی نے گگوئی کو کلین چٹ دے دی تھی۔ واضح رہے کہ رنجن گگوئی کے بعد جسٹس بوبڈے ملک کے چیف جسٹس مقرر ہوئے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Aug 2020, 3:58 PM