بنگال الیکشن: دوسرے مرحلہ کے بعد بی جے پی پریشان، خوب پیسہ بہایا لیکن...

بی جے پی کی بنگال میں ہونے والی ریلیوں میں کمل چھاپ ساڑی پہنی عورتیں اور ایسی ہی ٹی شرٹ پہنے لوگوں کی بھیڑ خوب نظر آئی۔ کہیں کہیں ہزار روپے کے کوپن بھی بانٹنے کی بات سامنے آ رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں بی جے پی فرقہ واریت کی بنیاد پر لوگوں کو پولرائز کرنے کی کوششوں کے علاوہ بھی کئی طرح کے ’کھیل‘ ریاست میں کھیل رہی ہے۔ اس کھیل کے داؤ پیچ صاف نظر آ رہے ہیں۔ کئی بار لوگ اس کا اظہار کر جاتے ہیں تو کئی بار سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں۔ ذرا اس بات چیت پر ہی غور کیجیے...

آپ نے یہ ساڑی کہاں سے خریدی؟

خریدی نہیں، اسے مودی جی نے دیا ہے۔

لیکن مودی جی یہاں کہاں سے آ گئے؟ یہاں تو بی جے پی امیدوار شبھیندو ادھیکاری ہیں۔

ہاں، مودی جی نے بھیجا ہے اور شبھیندو دادا نے ہم کو ساڑیاں دی ہیں اور نوجوانوں کو پی ایم کی تصویر والی ٹی شرٹ۔

یہ بات چیت 30 مارچ کو بنگال کی ہائی پروفائل سیٹ نندی گرام کے ہری پور گاؤں میں بنے ہیلی پیڈ کے پاس ہو رہی تھی۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا اسی دن ریاپاڑا علاقے میں روڈ شو تھا اور وہاں جانے کے لیے وہ اسی ہیلی پیڈ پر اترے تھے۔ ان کے ہیلی کاپٹر کو دیکھنے کے لیے گاؤں کی جو درجنوں خواتین آئیں، ان میں سے بیشتر نے کمل کے پھول پرنٹ کی ہوئی ساڑیاں پہن رکھی تھیں۔ جس خاتون سے یہ بات چیت ہوئی، وہ بھی اس میں شامل تھی۔ اس نے بتایا کہ علاقے کے زیادہ تر گاؤں میں ایسی ساڑیاں اور ٹی شرٹ تقسیم کیے گئے ہیں۔ ہیلی پیڈ کے پاس جمع کئی لوگوں نے آف دی ریکارڈ پیسوں سے بھرا لفافہ تقسیم کیے جانے کی بھی بات کہی۔ لیکن تحریر کنندہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا۔ لوگوں نے بھی کیمرے پر بولنے سے انکار کر دیا۔


نندی گرام کا یہ واقعہ تو صرف ایک مثال ہے کہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کس انداز میں پانی کی طرح پیسہ بہا رہی ہے۔ ریاست کے دیگر علاقوں سے بھی ساڑیاں و کپڑے تقسیم کیے جانے کی خبریں آئی ہیں۔ کچھ مقامات پر بی جے پی کی جانب سے ایک ایک ہزار روپے کے کوپن تقسیم کیے جانے کی بھی باتیں سامنے آئی ہیں۔ ترنمول کانگریس بھی انتخابی سامان تقسیم کر رہی ہے، لیکن وہ ٹوپیوں اور ٹیبل و کیلنڈر تک ہی محدود ہے۔

بی جے پی کے ایک لیڈر کمل چھاپ ساڑی تقسیم کرنے کے الزام کو بے بنیاد بتاتے ہیں۔ نام نہیں شائع کرنے کی شرط پر وہ کہتے ہیں کہ ایسی تمام چیزیں دکانوں پر فروخت ہو رہی ہیں، لوگوں نے وہیں سے خریدا ہوگا۔ لیکن یہ دلیل گلے کے نیچے نہیں اترتی۔ پہلی وجہ یہ کہ ایسی چیزیں صرف کولکاتا سمیت کچھ بڑے شہروں میں ہی مل رہی ہیں۔ نندی گرام کے گاؤں میں، جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی ٹھیک سے نہیں ملتی ہوں، وہاں کے لوگ یہ کپڑے کیوں خریدیں گے؟ بی جے پی کے اس لیڈر کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔


جنوب 24 پرگنہ ضلع کے رائے دیگھی علاقے کے جے نگر میں تو وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک ریلی میں شامل ہونے اور بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے لوگوں میں ایک ایک ہزار کے کوپن تقسیم کیے جانے کے الزام لگ چکے ہیں۔ ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے کوپن کی تصویروں کے ساتھ ایک ٹوئٹ میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ کوپن پر وزیر اعظم کی تصویر کے علاوہ بی جے پی کا لوگو بھی بنا تھا۔ غور طلب ہے کہ جنوب 24 پرگنہ ترنمول کانگریس کا قلعہ مانا جاتا ہے۔

دوسری طرف بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ رائے دیگھی کے لوگوں نے بی جے پی کو چندے کی شکل میں ایک ایک ہزار روپے دیے اور وہ کوپن اسی چندے کی رسید ہے۔ اگر اس دعوے میں حقیقت ہے تو بے جھجک کہا جا سکتا ہے کہ یا تو وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مغربی بنگال کو واقعی سونار بانگلا بنا دیا ہے یا پھر وزیر اعظم نے جادو کی چھڑی سے کچھ ہفتوں کے اندر ہی یہ کرشمہ کر دکھایا ہے۔


سی پی ایم حامی حضرت لشکر بتاتے ہیں کہ ’’بی جے پی کے ایک قومی لیڈر نے مارچ کے آخر میں یہ کوپن تقسیم کیے تھے۔ اس نے گاؤں والوں سے مودی کی ریلی میں حصہ لینے کو کہا تھا۔ کچھ لوگوں کو یہ رقم اچھی لگی اور وہ ریلی میں بھی گئے۔ لیکن کئی لوگوں نے کوپن لینے کے باوجود اس میں حصہ نہیں لیا۔ مجھے بھی کوپن ملا تھا، لیکن میں ریلی میں نہیں گیا۔‘‘ لشکر کے مطابق بی جے پی نے کہا تھا کہ ووٹنگ کے بعد کوپن کے بدلے نقدی مل جائے گی۔

بنگال بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کا اس پورے معاملے میں کہنا ہے کہ ’’مرکزی قیادت نے ہمیں بھروسہ دیا تھا کہ ترنمول کانگریس سے بنگال کا اقتدار چھیننے کی راہ میں پیسوں کی کوئی دقت نہیں ہوگی۔ شرط یہ تھی کہ ہمیں نتائج دکھانے ہوں گے۔ لیکن پانی کی طرح پیسہ بہانے کے باوجود امید کے مطابق کارکردگی نہیں ہونے کی وجہ سے خرچ پرنگاہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘ دراصل کچھ بی جے پی لیڈروں کے مطابق یہ شکایتیں بھی ملی ہیں کہ کچھ امیدوار الیکشن مہم کے لیے ملی رقم کو ٹھیک سے خرچ نہیں کر رہے ہیں۔ کچھ لیڈر بلاوجہ کچھ کلو میٹر کے دورے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر کرایہ پر لے رہے ہیں۔


اسی طرح ہگلی ضلع کے ایک بی جے پی لیڈر جو ٹکٹ پانے کی دوڑ میں شامل تھے، کہتے ہیں کہ ’’امیدواروں کی فہرست جاری ہونے کے بعد ریاست کے کئی علاقوں میں جو احتجاجی مظاہرے ہوئے ان کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ٹکٹ ملنا جیت کی گارنٹی تھی اور پارٹی کے حق میں زبردست لہر چل رہی تھی۔ دراصل انتخابی خرچ کی مد میں ملنے والی زبردست رقم میں ان کو اپنا مستقبل نظر آ رہا تھا۔‘‘

اس درمیان سیاسی تجزیہ نگار سمیرن پال کا کہنا ہے کہ ’’بی جے پی پانی کی طرح پیسے بہا رہی ہے۔ اس کا ہدف کسی طرح بنگال کے اقتدار پر قابض ہونا ہے۔ لیکن کیا یہ دولت کی طاقت اسے اقتدار دلا پائے گی، اس کا جواب تو 2 مئی کو ہی ملے گا۔‘‘

(پربھاکر منی تیواری کے ہندی مضمون کا ترجمہ، بشکریہ ’نو جیون‘)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔