بیتے دنوں کی بات: کولہو سے نکلنے والے رس کا دور اب تاریخ ہو گیا ہے

بیل یا مویشی کی آنکھوں پر کپڑے سے پٹی باندھ دی جاتی تھی تاکہ ایک تو اس کو دیر تک ایک ہی دائرے میں گھومنے سے چکر نہ آئیں اور ساتھ میں ادھر ادھر دیکھنے سے اس کی توجہ نہ بٹ سکے۔

<div class="paragraphs"><p>کولہو اور بیل / تصویر بشکریہ وکی میڈیا</p></div>

کولہو اور بیل / تصویر بشکریہ وکی میڈیا

user

سید خرم رضا

سائنس نے انسان کو ہر چیز کا حل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس نے انسان سے وقت چھین لیا ہے۔ صحت سے جڑی تمام چیزیں چاہے وہ جسمانی ورزش ہو یا کھانے کی چیزیں ہوں سب سے انسان نے سمجھوتہ کر لیا ہے اور اس سمجھوتے کی بڑی وجہ وقت کی کمی ہے۔ کمپنیاں بھی اس وقت کی کمی کا خوب فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں اسی لئے ’دو منٹ میں نوڈلس‘ جیسے اشتہار میں وہ کم وقت کا احساس کراتی رہتی ہیں۔ فاسٹ فوڈ ہو یا جلدی جلدی جم میں ورزش کرنے کا عمل ہو سب میں وقت کی قلت کا احساس کرایا جاتا ہے۔

اس کے برعکس ایک وقت تھا جب انسان کے پاس وقت تھا تو وہ کولہو سے تیار تیل اور گنے کی رس کی کھیر کا مزہ لیتے تھے۔ سرسوں اور دیگر تیلوں کی وجہ سے لفظ کولہو کو تو کچھ لوگ جانتے ہیں لیکن اب اس بات کا علم شائد ہی کسی کو ہو کہ گنے کی کھیر کا شمالی ہندوستان کے کھانوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کھیر کے لئے جو گنوں کا رس نکالا جاتا تھا اس کا واحد حل کولہو ہی تھا۔ چاہے سرسوں کا تیل ہو یا گنے کا رس ہو دونوں میں کولہو کا مرکزی کردار ہےاور کولہو کا مرکزی کردار عام طور پر بیل ویسے اس کا کام کسی بھی گھریلوں مویشی سے کروایا جا سکتا تھا۔


سرسوں کا تیل نکالنے کے لئے کولہو پوری طرح لکڑی کا بنا ہوتا تھا اور جبکہ گنے کا رس نکالنے کے لئے دو لوہے کے رولر کا استعمال کیا جاتا تھا۔ چلانے کا طریقہ دونوں کولہوؤں کا ایک جیسا ہوتا تھا۔ رس اور تیل نکالنے کا طریقہ بھی ایک ہی ہوتا تھا کہ اس کو ہلکے ہلکے گھوما کر پیسا جاتا تھا اور تیل یا رس جمع کرنے کے لئے نیچے ایک برتن رکھنے کی جگہ ہوتی تھی۔ مویشی جو عام طور پر ایک بیل ہی ہوا کرتا تھا اس کو کچھ فاصلے پر گھومنے کے لئے ایک لکڑی سے جوڑ دیا جاتا تھا اور وہ ایک طے شدہ دائرے میں یعنی بندھی ہوئی لکڑی کے دائرے میں گھومتا رہتا تھا۔ اس کے چکر لگانے یا گھومنے سے سرسوں کے تیل کے لئے جس پیالے نما لکڑی کے برتن میں سرسوں ڈالی جاتی تھی اس میں لگی لکڑی جس سمت میں بیل گھومتا ہے اس کی مخالف سمت میں گھومتی ہے اور اس کے ذریعہ سرسوں کے پیسے جانے سے نکلنے والا تیل نیچے جمع ہو جاتا ہے۔

جس طرح سرسوں کا تیل کولہو سے نکلتا ہے ایسے ہی گنے کا رس نکالا جاتا ہے بس فرق یہ ہے کہ اس میں پیالے نما لکڑی کی جگہ لوہے کے دو رولر لگے ہوتے تھے جس کے بیچ گنوں کو ڈالا جاتا تھا تاکہ ان کے دبنے یا پسنے سے ان کا جو رس نکلتا تھا وہ نیچے رکھے برتن میں جمع ہو جاتا تھا۔


بیل یا مویشی کی آنکھوں پر کپڑے سے پٹی باندھ دی جاتی تھی تاکہ ایک تو اس کو دیر تک ایک ہی دائرے میں گھومنے سے چکر نہ آئیں اور ساتھ میں ادھر ادھر دیکھنے سے اس کی توجہ نہ بٹ سکے۔ بیل کی ایک ہی سمت میں چکر لگائے جانے کی وجہ سے ہی اس کو محاورے میں استعمال کیا جانے لگا یعنی ہر کسی ایسے شخص کو جو ایک ہی سمت میں محنت اورصبر کے ساتھ چکر لگاتا ہے تو وہ بیچارہ کولہو کا بیل کہلایا جاتا ہے۔

 اس دور میں جب لوگوں کے ذہنوں میں وقت کی شدید قلت ہے تو کولہوؤں کے استعمال کی بات تو دن بدن تاریخ بنتی جا رہی ہے۔ بہر حال ایک زمانہ تھا جب کسی بھی گھر سے مویشی کو لاکر کولہو میں جوت کر گنے کا رس نکالا جاتا تھا اور پھر ساری رات اس رس کی کھیر بنتی تھی۔ اب تو ہر چیز ریڈی میڈ کم وقت میں چاہئے ہوتی ہے۔ وہ سب بیتے دنوں کی بات ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔