دلت پردھان قتل معاملہ: کنبہ سے ملنے جا رہے یوپی کانگریس صدر سمیت کئی رہنما اعظم گڑھ میں نظربند

سرکٹ ہاؤس میں نظر بند ہونے والے رہنماؤں میں کانگریس کے قومی ترجمان پی ایل پونیا، ریاستی صدر اجے کمار للو، مہاراشٹر حکومت میں وزیر نتن راؤت سمیت کئی دیگر رہنما شامل ہیں

 ریاستی کانگریس کے صدر اجے کمار للو، تصویر یو پی کانگریس
ریاستی کانگریس کے صدر اجے کمار للو، تصویر یو پی کانگریس
user

قومی آواز بیورو

لکھنؤ: اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں دلت پردھان ستیہ میو جیتے کے قتل کا معاملہ طول پکڑ رہا ہے۔ جمعرات کے روز ریاستی کانگریس کے صدر اجے کمار للو سمیت متعدد لیڈران پر مشتمل وفد کو متاثرہ کنبہ سے ملاقات کرنے جاتے وقت پولیس نے حراست میں لے لیا اور انہیں سرکٹ ہاؤس میں نظر بند کر کے رکھا گیا ہے۔

سرکٹ ہاؤس میں نظر بند ہونے والے رہنماؤں میں کانگریس کے قومی ترجمان پی ایل پونیا، ریاستی صدر اجے کمار للو، مہاراشٹر حکومت میں وزیر نتن راؤت سمیت کئی دیگر رہنما شامل ہیں، انہیں ضلع انتظامیہ نے مقتول دلت پردھان کے گاؤں میں جانے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی نظر بند کیے گئے لیڈران سے کسی کو بھی ملنے دیا جا رہا ہے۔


میڈیا کو بھی سرکٹ ہاؤس میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ ضلع انتظامیہ کا کوئی بھی اعلیٰ افسر کیمرے کے سامنے کچھ بھی بولنے سے گریز کر رہا ہے۔ سرکٹ ہاؤس کو پولیس چھاونی میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

کیا ہے پورا معاملہ؟

اعظم گڑھ کے باسن گاؤں میں حال ہی میں دلت پردھان ستیہ میو جیتے کا گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔قتل کا الزام گاؤں کے ہی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر عائد کیا جا رہا ہے۔ 42 سالہ ستیہ میو جیتے پہلی بار گاؤں کے پردھان منتخب ہوئے تھے۔ دلتوں کا الزام ہے کہ ستیہ میو نے ٹھاکروں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لئے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔


پولیس کے مطابق واقعہ کے روز ستیہ میو گاؤں کے باہر ایک پرائیویٹ اسکول کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ یہاں ان کے دوست وویک سنگھ اور سوریانش دوبے انہیں ٹیوب ویل پر کھانا کھلانے کے بہانے لے گئے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اسی دوران ان میں کسی بات کو لے کر ان بن ہو گئی اور ستیہ میو کو گولی مار دی گئی۔ ملزمان نے ستیہ میو کے گھر قتل کی اطلاع دی اور فرار ہو گئے۔ ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں دلت طبقہ کے لوگوں نے سڑک پر اتر پر احتجاج کیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔