رواں سال کے آخر میں 2 نہیں، 7 ریاستوں میں ہو سکتے ہیں اسمبلی انتخابات!
صحافی پرمود کمار سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’بی جے پی حکومت ایک ملک ایک انتخاب کو لے کر کافی سنجیدہ ہے، حالانکہ ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے جس کی وجہ سے ہر سال انتخابات پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔‘‘
گجرات اور ہماچل پردیش میں رواں سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، لیکن ایسی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ مزید پانچ ریاستوں میں 2022 کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہو سکتے ہیں۔ یعنی سات ریاستوں میں ایک ساتھ اسمبلی انتخابات کرانے کی تیاریوں پر غور ہو رہا ہے۔ یہ پانچ ریاستیں ہیں کرناٹک، جموں و کشمیر، میگھالیہ، تریپورہ اور ناگالینڈ۔ میگھالیہ تریپورہ اور ناگالینڈ میں حکومت کی مدت کار آئندہ سال مارچ میں ختم ہو رہی ہے، جب کہ کرناٹک حکومت کی مدت کار مئی 2023 تک ہے۔ جموں و کشمیر میں اس وقت صدر راج نافذ ہے اور گزشتہ کچھ دنوں سے جیسی سرگرمیاں جموں و کشمیر کو لے کر دیکھنے کو مل رہی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ کبھی بھی وہاں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔
بی جے پی صدر جے پی نڈا نے گزشتہ ہفتہ میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کورناڈ سنگما سے فون پر بات چیت کی تھی۔ بی جے پی ذرائع کا کہنا ہے کہ نڈا نے سنگما سے وقت سے قبل ریاست میں انتخاب کو لے کر تبادلہ خیال کیا ہے۔ انھوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا وقت سے قبل ریاست میں انتخاب کرائے جا سکتے ہیں؟ اس صورت میں کہیں پارٹی کو کوئی نقصان تو نہیں ہوگا؟
دوسری طرف بی ایل سنتوش شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے دو روزہ دورے پر ہیں۔ تریپورہ حکومت کی مدت کار بھی آئندہ سال مارچ میں ختم ہو رہی ہے۔ ایسے میں یہاں بھی وقت سے پہلے انتخاب کرائے جا سکتے ہیں۔ بی ایل سنتوش اپنے اس سفر کے دوران وزیر اعلیٰ، بی جے پی ریاستی صدر، ریاستی انچارج ونود سونکر کے ساتھ اتحادی پارٹی کے لیڈروں اور اراکین اسمبلی کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میٹنگ کے ذریعہ بھی وہ یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اگر وقت سے پہلے یہاں انتخاب کرایا جاتا ہے تو اس کے کیا فائدے اور نقصان ہو سکتے ہیں۔
کئی لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہوگا کہ آخر سات ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے کی تیاری کیوں چل رہی ہے؟ اس سلسلے میں سینئر صحافی پرمود کمار سنگھ نے ایک میڈیا ادارہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بی جے پی حکومت ایک ملک ایک انتخاب کو لے کر کافی سنجیدہ ہے۔ حالانکہ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے جس کی وجہ سے ہر سال انتخاب پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ الگ الگ انتخاب ہونے سے یہ خرچ مزید بڑھ جاتا ہے۔ حکومت دھیرے دھیرے اس خرچ کو کم کرنے کی کوشش میں ہے۔ اگر ان سبھی سات ریاستوں میں اسی سال انتخاب ہو گئے تو کافی پیسے بچ جائیں گے۔‘‘
یہاں دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ کیا وقت سے پہلے انتخاب کرانا مرکزی حکومت کے لیے ممکن ہے؟ دراصل اگر ریاستی حکومت کی تجویز پر گورنر اسمبلی تحلیل کر دیں تو وقت سے پہلے انتخاب کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ جن پانچ ریاستوں میں قبل از وقت انتخاب کرانے کی بات ہو رہی ہے وہاں یا تو بی جے پی برسراقتدار ہے، یا پھر حکومت میں بطور اتحادی پارٹی شامل ہے۔ مثلاً کرناٹک اور تریپورہ میں بی جے پی کی حکومت ہے جہاں قبل از وقت انتخاب کرانے میں بی جے پی کو زیادہ دقت نہیں ہوگی، لیکن میگھالیہ اور ناگالینڈ میں بی جے پی کو اتحادی پارٹیوں کو سمجھانا ہوگا۔ جہاں تک جموں و کشمیر کا سوال ہے، وہاں تو صدر راج نافذ ہے اور مرکز کے زیر انتظام اس خطہ میں اسمبلی انتخاب کرانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔