آسام این آر سی معاملہ: اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کا نوٹیفیکیشن سپریم کورٹ کی ہدایات کے خلاف... مولانا ارشد

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ بادی النظرمیں تو اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کا نوٹیفیکیشن سپریم کورٹ کے ذریعہ وقت وقت پر دی جانے والی ہدایت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

مولانا ارشد مدنی تصویر / یو این آئی
مولانا ارشد مدنی تصویر / یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی:آسام شہری رجسٹرکے سلسلے میں نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹرکے گزشتہ 13 اکتوبر کو ریاست کے تمام ڈسٹرکٹ رجسٹرار آف سٹیزن رجسٹریشن ڈی آر ایس آر کو ایک نوٹیفیکیشن کے خلاف جمعیۃ علمائے ہند سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی کیوں کہ ضابطے کے خلاف اورخاص طبقہ کو نشانہ بنا کر جاری کیا گیا ہے۔

جمعیۃ کے جاری کردہ ریلیز کے مطابق نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر ہتیش دیو شرما نے گزشتہ 13 اکتوبر کو ریاست کے تمام ڈسٹرکٹ رجسٹرار آف سٹیزن رجسٹریشن ڈی آرایس آرکو ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے کہا ہے کہ ہماری معلومات میں یہ بات آچکی ہے کہ ایسے بہت سے غیر قانونی اشخاص اور ان کے اجداد کا نام این آرسی میں شامل ہوگیا ہے جو یا تو مشکوک ہیں یا ڈی ووٹر ہیں یا پھر فارن ٹریبونل سے غیر ملکی قرار دیئے جاچکے ہیں، ایسے تمام لوگوں کا نام این آرسی سے ہٹایا جائے کیونکہ یہ غیر ملکی ہیں۔ انہوں نے اس حوالہ سے شہریت قانون (شہریوں کا رجسٹریشن اورقومی شناختی کارڈکا اجرا) 2003کی دفعہ 4(3)کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آسام میں این آر سی کی حمتی فہرست کی اشاعت سے قبل ضرورت کے مطابق اس طرح کے لوگوں کے ناموں کا ری ویری فکیشن کیا جاسکتا ہے، جبکہ سچائی یہ ہے کہ 23 جولائی 2019 کو مرکز اور آسام سرکار این آر سی کی جزوی فہرست کی اشاعت کے بعد ایسے لوگوں کے خلاف ری ویری فیکیشن چاہ رہی تھی جن کے رشتہ دار این آرسی میں شامل نہیں ہیں، لیکن اس وقت سپریم کورٹ نے ان کی درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا تھا کہ اب دوبارہ این آرسی یا ویری فیکیشن کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے این آرسی کی حتمی فہرست 31 اگست 2019 تک شائع کر دی جائے۔


واضح رہے کہ جمعیۃعلماء ہند نے ڈی ووٹر کو ہولڈ پر رکھنے کی ایک اپیل سپریم کورٹ میں کر رکھی ہے، مگر اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ انہیں ہولڈ پر نہیں رکھا جاسکتا، بلکہ یہ غیر ملکی ہیں اس لئے ان کا نام این آر سی سے خارج ہونا چاہیے، قابل ذکر ہے کہ یہ وہی ہتیش دیوشرما ہیں جو اسٹیٹ کوآرڈینیٹر بننے سے پہلے ہی آسام شہریت کے تعلق سے اپنے بیانات کو لیکر متنازعہ ہوچکے تھے، ان کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر بننے کے فوراً بعد جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرکے ان کی تقرری پر سوال اٹھایا تھا اور دلیل دی تھی کہ شرما غیر جانبدار نہیں ہیں اور پہلے ہی اپنے اشتعال انگیز بیانات سے سرخیوں میں آچکے ہیں، جن میں انہوں نے ایک مخصوص طبقہ کو اپنا نشانہ بنایا ہے، اس لئے اس طرح کے کسی شخص کو اسٹیٹ کوآرڈینیٹر جیسی اہم ذمہ داری کیسے دی جاسکتی ہے؟ اس پر سپریم کورٹ نے مرکز اور آسام حکومت سے جواب طلب کیا تھا مگر ان کی طرف سے اب تک کوئی جواب عدالت میں داخل نہیں کیا گیا ہے، یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے، ایسے میں اسٹیٹ کوآرڈینیٹر اس طرح کا کوئی حکم کیوں کر جاری کرسکتا ہے؟ دوسرے سپریم کورٹ کی ایک مانیٹرنگ بنچ بھی ہے جو آسام شہریت معاملہ پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہے، ایسے میں ایک بڑاسوال یہ اٹھتاہے کہ کیا اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے اس طرح کا حکم جاری کرنے سے پہلے مانیٹرنگ بنچ کو اعتماد میں لیا ہے اگر نہیں تو کیا ایسا کر کے انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا؟ جمعیۃعلماء ہند اور آمسو انہی سوالوں کی بنیاد پر اسٹیٹ کوآرڈینیٹرکے تازہ حکم نامہ کو سپریم کورٹ میں اپنے وکیل فضیل ایوبی ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعہ چیلنچ کرنے جارہی ہے۔

واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃعلماء صوبہ آسام اول دن سے آسام شہریت معاملہ میں مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر مسلسل قانونی جنگ لڑتی آئی ہیں جس میں اسے کامیابی ملتی رہی ہے، جمعیۃ علماء آسام کے لوگ مقامی سطح پر بھی لوگوں کو قانونی امداد مہیا کرا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آسام میں این آر سی کا عمل جب سے شروع ہوا ایک مخصوص منصوبہ کے تحت اس عمل میں طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے رخنہ ڈالنے اور اقلیتی فرقے کو پریشان کرنے کا سلسلہ جاری ہے، 31 دسمبر 2017 کو این آرسی کا جب پہلا جزوی مسودہ جاری ہوا تھا اور فرقہ پرست طاقتوں کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ ان کا حربہ ناکام ہوچکا ہے تو انہوں نے این آر سی پر سوال اٹھانا شروع کر دیا تھا، یہاں تک کہ مرکز اور آسام حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے یہ درخواست کی گئی تھی کہ این آرسی میں بہت سی خامیاں ہیں اس لئے اسے دوبارہ کرانے کی اجازت دی جائے، مگر جب عدالت نے اس کی اجازت نہیں دی تو ری ویریفیکیشن کی درخواست کرکے کہا گیا کہ بنگلہ دیش سے متصل اضلاع میں 20 فیصد اور باقی اضلاع میں 10 فیصد ناموں کی دوبارہ تصدیق کی اجازت دی جائے، مقصد صاف تھا اگر اجازت مل جاتی تو وہ وہی سب کچھ کرتے جو اب اسٹیٹ کوآرڈینیٹر اپنے تازہ حکم کے ذریعہ کرنا چاہ رہے ہیں، مگر تب سپریم کورٹ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی، این آرسی کی حتمی فہرست سامنے آئی تو پتہ چلا کہ ایسے بہت سے والدین ہیں جن کے نام این آرسی میں آگئے ہیں مگران کے بچوں کے نام شامل نہیں ہیں، اس معاملے کو لیکر جمعیۃعلماء ہند ایک بار پھر سپریم کورٹ سے درخواست گزار ہوئی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جن بچوں کی عمریں 14 سال سے کم ہیں انہیں حراستی کیمپوں میں نہیں بھیجا جائے گا اس کے جواب میں اٹارنی جنرل وینو گوپال نے مرکز کی طرف سے سپریم کورٹ کی بنچ کے سامنے کہا کہ ایسے بچوں کو حراستی کیمپوں میں نہیں بھیجا جائے گا، لیکن اب جو یہ تازہ حکم جاری ہوا ہے اس سے نہ صرف ان بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے بلکہ پوری ریاست میں ایک بار پھر افراتفری پھیل سکتی ہے اور شہریت ثابت کرنے کے قانونی عمل کو دھچکا لگ سکتا ہے۔


آسام شہریت معاملے میں ہوئی اس تازہ پیش رفت پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں آسام میں ناکام ہوچکی ہیں، انہوں نے این آرسی کو لیکر جو نشانہ طے کر رکھا تھا اس میں انہیں سخت مایوسی ہاتھ لگی ہے اس لئے اب وہ تازہ حیلوں اور بہانوں سے ایک بار پھر ریاست میں ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے فرقہ وارانہ صف بندی قائم کرنے کی دانستہ کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ پورے این آرسی عمل کے دوران ان طاقتوں نے مختلف طریقوں سے رخنہ ڈالنے کی کوشش کی مگر ہر موقع پر جمعیۃعلماء ہند ان کے راستے میں ایک آہنی دیواربن کر کھڑی ہوگئی، اور اب نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر ایک نیا حربہ لیکر سامنے آئے ہیں جمعیۃعلماء ہند اس کے خلاف بھی پوری تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ جا رہی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ سب سے پہلے جمعیۃعلماء ہند وہ معاملہ عدالت کے روبرو لائے گا جس میں نئے کوآرڈینیٹر کی تقرری کو چیلنج کیا گیا ہے اور جو گزشتہ جنوری سے زیرالتوا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ این آرسی کو لیکر سب کچھ آئینہ کی طرح صاف ہوچکا ہے، ایسے میں اس طرح کا نیا حربہ اختیار کرنا یہ بتاتا ہے کہ ان کی نیتوں میں کھوٹ ہے اور ایک خاص منصوبہ کے تحت ہی اس طرح کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ آسام شہریت معاملہ کی نگرانی سپریم کورٹ کی ایک مانیٹرنگ بنچ کر رہی ہے اور اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کی حیثیت محض ایک رابطہ کار کی ہے، ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ مانیٹرنگ بنچ کے موجود ہوتے ہوئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے آخر کیوں اور کس حیثیت سے اس طرح کا حکم نامہ جاری کیا؟ کیا انہوں نے مانٹیرنگ بنچ کو اعتماد میں لیا اگر نہیں تو ایسا کرکے کیا انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا ہے؟ مولانا مدنی نے کہا کہ بادی النظرمیں تو ان کا یہ حکم سپریم کورٹ کے ذریعہ وقت وقت پر دی جانے والی ہدایت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔