آسام میں ہندو تنظیم نے مشنری اسکولوں کے خلاف شروع کی پوسٹر مہم، مذہبی علامات کو ہٹانے کا الٹی میٹم

مذہب کی تبدیلی کا الزام لگاتے ہوئے ہندو شدت پسند تنظیم نے مشنری اسکولوں کے خلاف پوسٹر مہم شروع کر دی ہے، اس مہم میں تعلیمی اداروں و گرجا گھروں سے مذہبی علامات کو ہٹانے کے لیے کہا گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، یو این آئی</p></div>

علامتی تصویر، یو این آئی

user

قومی آوازبیورو

آسام میں ایک سخت گیر ہندو تنظیم نے مشنری اسکولوں کے خلاف پوسٹر مہم شروع کی ہے۔ اس مہم کے تحت مشنری اسکولوں کو اپنے کیمپس اور گرجا گھروں سے عیسائی علامتوں کو ہٹانے کے ساتھ تعلیمی اداروں کو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے روکنے کے لیے کہا گیا ہے۔

انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’سنملیٹا سناتن سماج‘ نامی تنظیم نے گواہاٹی، بارپیٹا، جورہاٹ اور شیو ساگر قصبوں میں مشنری کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کی دیواروں پر پوسٹر چسپاں کیے ہیں۔ اس سے قبل ایک اور سخت گیر گروپ کی جانب سے بھی ایسا ہی حکم جاری کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ پوسٹر سامنے آئے ہیں۔ اس گروپ نے دھمکی دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر مشنری اسکولوں نے اپنے کیمپس و گرجا گھروں سے یسوع مسیح اور مدر مریم کے مجسمے و دیگر عیسائی علامتوں کو نہیں ہٹایا تو ایک عوامی تحریک شروع کی جائے گی۔ اسی کے ساتھ ان اسکولوں کے پرنسپل اور اساتذہ سے مذہبی لباس نہ پہننے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔


ان پوسٹرس پر آسامی زبان میں لکھا گیا ہے کہ ’’اسکول کو ایک مذہبی ادارے کے طور پر استعمال کرنا بند کرنے کی یہ آخری تنبیہ ہے۔ ہندوستان مخالف اور غیر قانونی سرگرمیوں کو بند کیا جائے ورنہ...‘‘ اس گروپ کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ ’’ہم عیسائیوں کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہم مذہب تبدیل کرنے کے مقصد سے مذہبی علامات کے اس طرح استعمال کے خلاف ہیں۔ مشنری اسکول عیسائی مذہب کی تبلیغ و تشہیر پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں، نہ کہ ہندوستان یا ہندوستی تہذیب پر۔‘‘

دوسری جانب ’آسام کرسچن فورم‘ کے اراکین نے ان پوسٹرس پر کسی طرح کا رد عمل ظاہر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں پر مشنری اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہاں پر آسام کے ڈی سی پی اور ان اضلاع کے پولیس سربراہان سے مناسب کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایک دیگر رکن نے کہا کہ ’’ہمارے اداروں نے ہمیشہ پرامن ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے تمام مذاہب اور ثقافتوں کے افراد کا احترام کیا ہے اور ان کو جگہ دی ہے۔ اگر تبدیلی مذہب ہمارا مقصد ہوتا تو اب تک کم از کم آدھا آسام عیسائی ہو گیا ہوتا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔