’بیدار نہیں ہوئے تو آرٹیفیشیل انٹلیجنس دنیا کو تباہ کر دے گا‘، نئی تکنیک کو لے کر اقوام متحدہ کا اظہارِ فکر مندی
اینٹونیو گوٹیرس نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ہی دیکھ لیجیے، جسے لوگوں کے درمیان رابطہ بڑھانے کے لیے شروع کیا گیا تھا، اب کس طرح انتخاب کو متاثر کرنے، سازش اور نفرت و تشدد پھیلانے کا ٹول بن گیا ہے۔
اِن دنوں ’اے آئی‘ یعنی آرٹیفیشیل انٹلیجنس کی خوب شہرت ہے۔ اس کی خوبیاں بے پناہ ہیں، لیکن کئی دانشوروں اور ٹیکنالوجی ماہرین نے اس کو انتہائی خطرناک بھی بتایا ہے۔ دانشور طبقہ نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اے آئی امن و تحفظ کے لیے بڑی مصیبت کھڑی کر سکتا ہے اور دنیا کو تباہی کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ اب یہی اندیشے اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کی میٹنگ میں بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری اینٹونیو گوٹیرس کا کہنا ہے کہ اگر اے آئی اس حد تک رسائی بنا لے کہ وہ سائبر حملہ، ڈیپ فیک یا غلط تشہیر اور اشتعال انگیزی کو فروغ دے سکے، تو یہ دنیا کے امن و تحفظ کے لیے بڑا خطرہ بن جائے گا۔
اینٹونیو گوٹیرس نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ہی دیکھ لیجیے، جسے لوگوں کے درمیان رابطہ بڑھانے کے لیے شروع کیا گیا تھا، اب کس طرح انتخاب کو متاثر کرنے، سازش اور نفرت و تشدد پھیلانے کا ٹول بن گیا ہے۔ اے آئی میں کسی طرح کی خرابی آنا سب سے بڑی فکر کی بات ہوگی۔ فکر اس بات کو لے کر بھی ہے کہ اگر اس حالت میں اے آئی کا نیوکلیئر اسلحہ، بایو ٹیکنالوجی، نیورو ٹیکنالوجی، روبوٹس کے ساتھ انٹریکشن ہوگا تو اس کا اثر بہت برا ہو سکتا ہے۔
دراصل 15 رکنی اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کی یہ میٹنگ برطانیہ نے طلب کی تھی۔ یہاں خطاب میں گوٹیرس نے کہا کہ اے آئی پر ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ بلائی جائے گی۔ اس سال کے آخر تک گلوبل گورنینس پر ایک رپورٹ پیش کی جائے گی اور ساتھ ہی نئے ایجنڈا پر نیو پالیسی بریفنگ بھی دی جائے گی جو رکن ممالک کو اے آئی گورنینس کے بارے میں سفارشات کرے گی۔ انھوں نے حکومتوں اور نوکرشاہی کے اندر اے آئی کو لے کر ہنر کی کمی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
اینٹونیو گوٹیرس نے کہا کہ بین الاقوامی طبقہ کا ہمارے سماج اور معیشتوں کو رخنہ انداز کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اقوام متحدہ اے آئی پر بھی قدم اٹھائے گا۔ اس کے لیے نئے بین الاقوامی اصول طے کیے جائیں گے۔ نئی ٹریٹی (معاہدے)، نئی عالمی ایجنسیاں قائم کی جائیں گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جنیوا میں منعقد اے آئی فار گڈ اعلیٰ سطحی سمیلن میں ماہرین، پرائیویٹ سیکٹر، اقوام متحدہ ایجنسیاں اور حکومتیں ایک اسٹیج پر آئی تھیں۔ اس کے ذریعہ یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی کہ یہ تکنیک اصل معنوں میں عام مفاد کے لیے کام کرتی ہیں یا نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔