’ایک اور دن... کچھ اور انکشافات...‘، مفادات کے تصادم معاملہ پر کانگریس نے سیبی چیئرپرسن کو پھر بنایا ہدف تنقید

جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ سیبی چیئرپرسن کے ’مفادات کے تصادم‘ نے پہلے ہی اڈانی گروپ کے ذریعہ سیکورٹیز قوانین کی خلاف ورزی معاملے میں سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئی سیبی جانچ کا مذاق بنا دیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>جئے رام رمیش / آئی اے این ایس</p></div>

جئے رام رمیش / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

سیبی چیئرپرسن مادھبی پوری بُچ اور اڈانی گروپ سے متعلق ہنڈن برگ رپورٹ کے بعد سے ہی کانگریس سیبی چیئرپرسن کو ہدف تنقید بنا رہی ہے۔ گزشتہ روز ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ کی ایک رپورٹ میں مادھبی پر ’مفادات کے تصادم‘ کا الزام عائد کیا گیا، جس کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس نے ان پر زوردار حملہ کیا تھا۔ آج ’دی مارننگ کانٹیکسٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں سیبی چیئرپرسن سے متعلق ’مفادات کے تصادم‘ معاملہ کی کچھ دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کانگریس نے بھی ایک بار پھر مادھبی بُچ کو ہدف تنقید بنایا ہے۔

کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’ایک اور دن اور سیبی چیئرپرسن کی کارگزاری میں مفادات کے تصادم کو لے کر کچھ اور انکشافات۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’سیبی چیئرپرسن کے مفادات کے ٹکراؤ نے پہلے ہی اڈانی گروپ کے ذریعہ سیکورٹیز قوانین کی خلاف ورزی معاملے میں سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئی سیبی جانچ کا مذاق بنا دیا ہے۔‘‘ یہ لکھنے کے بعد جئے رام رمیش ’دی مارننگ کانٹیکسٹ‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’دی مارننگ کانٹیکسٹ نے سیبی چیئرپرسن سے متعلق مفادات کے تصادم کے دیگر پہلوؤں کو نشان زد کیا ہے۔ ان میں نجی ایکویٹی فرم بلیک اسٹون شامل ہے، ہجاں ان کے شوہر سینئر صلاحکار کی شکل میں کام کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بلیک اسٹون اور سیبی سے جڑا کم از کم ایک کیس ایسا ہے، جس سے انھوں نے خود کو آزاد نہیں کیا ہے (یا قانونی زبان میں کہیں تو خود کو الگ نہیں کیا ہے)۔‘‘


پوسٹ کے آخر میں جئے رام رمیش حملہ آور رخ اختیار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اتنا سب کچھ سامنے آنے کے بعد چیئرپرسن کا اپنے عہدہ پر برقرار رہنا نہ تو اخلاقی طور سے درست ہے اور نہ ہی قابل قبول۔ انھیں استعفیٰ دینا چاہیے۔ ساتھ ہی اڈانی مہاگھوٹالے کی پوری طرح سے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) سے جانچ کرانی چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔