پرکاش امبیڈکر-ادھو ٹھاکرے اتحاد سے مہاراشٹر میں بی جے پی کے لیے خطرے کی ایک اور گھنٹی بج گئی
2019 لوک سبھا انتخاب میں پرکاش امبیڈکر کی پارٹی وی بی اے نے اویسی کی پارٹی ایم آئی ایم کے ساتھ اتحاد کیا تھا، تب وی بی اے امیدواروں کو 8 میں سے 10 سیٹوں پر ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔
چھواچھوت اور اعلیٰ ذاتوں کے مظالم کے خلاف 1950 کی دہائی میں ان کے داداؤں نے ایک ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر اور پربودھنکر ٹھاکرے کے پوتے ادھو ٹھاکرے جب نومبر کے آخری ہفتے میں پربودھنکر کے نام پر وقف ویب سائٹ کی لانچنگ کے موقع پر ملے تو لگا کہ وہ رابطہ اب بھی بنا ہوا ہے۔ یہ روٹین جیسا پروگرام تھا، لیکن اس کے بعد تو مہاراشٹر کی سیاست کے مستقبل کو لے کر کچھ الگ اشارے ملنے لگے۔ ونچت بہوجن اگھاڑی (وی بی اے) چیف پرکاش امبیڈکر کو سابق وزیر اعلیٰ ادھو نے اپنے ساتھ آنے کی اسٹیج سے ہی دعوت دے دی۔ اس پر پرکاش نے کہا کہ تاناشاہی کے خلاف جدوجہد میں ایک ہی نظریہ کی پارٹیوں کا ایک ساتھ آنے کا یہ یقیناً بالکل صحیح وقت ہے۔
کیا یہ مزید ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے؟ حالانکہ اپوزیشن اتحاد کی رفتار اور اس کا خاکہ ابھی تیار ہی کیا جا رہا ہے، تجزیہ کار اس بات پر تو متفق ہیں کہ وی بی اے-شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) کا ایک ساتھ آنا بی جے پی کے لیے بڑا دھچکا ہے، کیونکہ وی بی اے کی رسائی ریاست میں نہ صرف دلتوں بلکہ او بی سی کے درمیان بھی ہے۔
2019 لوک سبھا انتخابات میں وی بی اے نے اسدالدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ تب وی بی اے امیدواروں کو 8 میں سے 10 سیٹوں پر ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ یہ کانگریس اور این سی پی امیدواروں کی شکست کے سبب بنے تھے اور اس سے بی جے پی کو جیت کا راستہ مل گیا تھا۔
پرکاش امبیڈکر نے دو سیٹوں سے انتخاب لڑا تھا۔ اکولا تو ان کی روایتی سیٹ ہے، جبکہ سولاپور میں بھی وہ امیدوار تھے۔ یہاں سابق مرکزی وزیر سشیل کمار بھی امیدوار تھے اور بی جے پی انھیں شکست دینا چاہتی تھی۔ امبیڈکر دونوں سیٹوں سے تو ہارے ہی، کانگریس کو بھی یہاں جیت نہیں ملی۔ ویسے امبیڈکر صرف ایک بار 1998 میں اکولا سے جیت پائے ہیں اور وہ بھی کانگریس کے ساتھ اتحاد میں۔ یہ بھی تب ممکن ہو پایا جب شرد پوار نے اس عام انتخابی حلقہ میں اعلیٰ ذاتوں کو ایک دلت کو ووٹ دینے کے لیے اپیل کی۔ 2019 میں ہی بعد میں ہوئے مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں وی بی اے نے تنہا ہی انتخاب لڑا۔ اسے تقریباً 30 سیٹوں میں اچھے خاصے ووٹ ملے۔ لیکن بالآخر اس سے بی جے پی کو ہی جیت کے مواقع ملے۔
یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ وی بی اے آنے والے دنوں میں صرف شیوسینا (ادھو) کے ساتھ ہی رہے گا یا شیوسینا (ادھو)-کانگریس-این سی پی کے اتحاد ایم وی اے میں بھی اسے جگہ ملے گی۔ وی بی اے کی خواہش ایم وی اے میں شامل ہونے کی ہے۔ پرکاش امبیڈکر نے اشارہ بھی دیا ہے کہ اس سلسلے میں آگے کی بات کے لیے گیند ادھو کے پالے میں ہے۔ ابھی یہ بھی صاف نہیں ہے کہ آئندہ سال کی شروعات میں ممکنہ بی ایم سی انتخاب تک ہی شیوسینا (ادھو) کے ساتھ وی بی اے کا اتحاد رہے گا یا یہ 2024 عام انتخاب تک چلے گا۔ انتخاب کوئی بھی ہو، امکان تو یہی ہے کہ اس سے نقصان بی جے پی کو ہوگا۔
288 رکنی مہاراشٹر اسمبلی میں وِدربھ سے 62 سیٹیں ہیں۔ اس علاقے میں امبیڈکروادی آبادی 22-21 فیصد تک ہے۔ مراٹھواڑا میں 46 سیٹیں ہیں اور وہاں بھی مراٹھوں، دلتوں اور مسلمانوں کی تعداد تقریباً یکساں طور پر تقسیم ہے۔ اس علاقے میں اویسی کے امیدوار کانگریس-این سی پی کی جیت کی راہ میں رخنہ بنے رہتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر وی بی اے کے ساتھ اتحاد ممکن ہوا تو اس سے ایم وی اے کو فائدہ پہنچے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ووٹ حاصل کرنے اور اپنے حامیوں کے ووٹوں کو اپنے ساتھیوں کو دلوانے میں پرکاش امبیڈکر اب تک کامیاب رہے ہیں۔
فی الحال یہ مانا جا رہا ہے کہ کم از کم شیوسینا (ادھو) کے ساتھ وی بی اے کے اتحاد میں کوئی دقت نہیں ہے۔ اس معاملے پر کانگریس یا این سی پی کو اعتراض ہونے کی کوئی وجہ بھی نظر نہیں آتی۔ ہاں، این سی پی کو اعتراض ہو سکتا ہے اگر وی بی اے کو ایم وی اے میں شامل کیا جائے۔ ویسے بھی شیوسینا (ادھو) کا فی الحال مراٹھا مہاسنگھ اور سنبھاجی بریگیڈ کے ساتھ اتحاد ہے ہی۔
ویسے کچھ لوگ یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ 2019 میں بی جے پی سے ’بلاواسطہ‘ طریقے سے پیسے لے کر پرکاش امبیڈکر نے اپنے امیدوار کھڑے کیے تاکہ بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہوں اور کانگریس-این سی پی کی شکست یقینی ہو۔ لیکن سابق پولیس افسر اور وی بی اے کے نائب سربراہ رہ چکے دھنراج ونجاری صاف طور پر امبیڈکر کے ’نیتا کاروباری‘ ہونے کی بات کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ راج ٹھاکرے کی طرح پرکاش امبیڈکر بھی ’سب سے اونچے دام لگانے والے‘ کے فائدہ کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن اپنے لیے کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ وہ کہتے ہیں کہ راج ٹھاکرے نے بھی 2019 عام انتخاب میں مودی مخالف مہم زوردار طریقے سے چلائی اور مانا جاتا ہے کہ این سی پی نے اس کے لیے انھیں حوصلہ بخشا۔
ونجاری نے وی بی اے ٹکٹ پر وَردھا سے انتخاب لڑا تھا لیکن وہ شکست کھا گئے تھے۔ اب وہ وی بی اے کے ساتھ نہیں ہیں۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ راج ٹھاکرے اپنے ووٹ کانگریس-این سی پی کو نہیں دلوا سکے جبکہ اس معاملے میں امبیڈکر کہیں زیادہ کامیاب رہے کیونکہ انھوں نے اپنے حامیوں کے ووٹ بی جے پی کے خلاف ڈلوائے۔ ونجاری کا ماننا ہے کہ امبیڈکر نے پہلے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی کوشش کی تھی اور اس سلسلے میں وہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے سے بھی ملے تھے، لیکن ان لوگوں نے کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا۔
2019 عام انتخاب کے وقت کانگریس وی بی اے کے ساتھ اتحاد کو پرجوش لگ رہی تھی۔ لیکن وی بی اے ریاست کی 48 لوک سبھا سیٹوں میں سے 24 پر امیدوار اتارنا چاہ رہی تھی۔ پرکاش امبیڈکر کو جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ ضدی بھی ہیں۔ اس وجہ سے بات چیت آگے نہیں بڑھی۔ انھیں جاننے والے کہتے ہیں کہ مین اسٹریم کی پارٹیاں اپنی بات پر بضد ہو جانے کی پرکاش کی عادت کی وجہ سے بھی ان سے ہاتھ نہیں ملا پاتے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔