’بی جے پی کو خوش کرنے کے مقصد سے امرتیہ سین کو کیا جا رہا پریشان‘، 300 دانشوروں نے صدر جمہوریہ کو لکھا خط

دانشوروں نے صدر جمہوریہ کو لکھے خط میں الزام عائد کیا ہے کہ وشو بھارتی کے وائس چانسلر ودیوت چکرورتی ماہر معیشت امرتیہ سین کو پریشان کر رہے ہیں اور اس معاملے میں انھیں مداخلت کرنی چاہیے۔

امرتیہ سین، تصویر یو این آئی
امرتیہ سین، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

مغربی بنگال میں وشو بھارتی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ودیوت چکرورتی کے خلاف دنیا کے سرکردہ دانشوروں نے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو خط لکھا ہے۔ اس خط میں تقریباً 300 پروفیسرز، ماہر تعلیم، محققین اور مشہور اداروں کے طلبا نے لکھا ہے کہ بی جے پی کو خوش کرنے کے لیے نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کو پریشان کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

دانشوروں نے جمعہ (9 جون) کے روز صدر جمہوریہ کو لکھے خط میں الزام عائد کیا ہے کہ وشو بھارتی کے وائس چانسلر ودیوت چکرورتی ماہر معیشت امرتیہ سین کو پریشان کر رہے ہیں اور اس معاملے میں انھیں مداخلت کرنی چاہیے۔ دانشور لکھتے ہیں کہ ’’پروفیسر امرتیہ سین اور ہندوستان کی موجودہ حکومت کے درمیان نظریاتی اختلاف ہیں۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر وشو بھارتی کے وائس چانسلر بی جے پی کو خوش کرنے کے لیے ایسا سلوک کر رہے ہیں۔‘‘ صدر مرمو سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ یونیورسٹی کے نگراں کی شکل میں وائس چانسلر کی گرفت کریں۔


اس خط نے عالمی سطح پر ایک ہلچل پیدا کر دی ہے۔ دراصل امرتیہ سین کے ساتھ کھڑے ہونے اور وائس چانسلر کے خلاف کھڑے ہونے والوں میں بیشتر دانشور بیرون ممالک سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ جن لوگوں نے خط مین دستخط کیے ہیں ان میں میساچوئٹس میں معیشت کے مشہور پروفیسر جیمس کے. بوویس، جنیوا میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے پروفیسر جینن راجرس اور جے این یو کے معیشت کے پروفیسر پربھات پٹنایک وغیرہ شامل ہیں۔

واضح رہے کہ وشو بھارتی یونیورسٹی اور نوبل انعام ایفتہ امرتیہ سین کے درمیان تنازعہ شانتی نکیتن میں ان کے گھر پراتیچی کے 13 ڈیسیبل زمین کو لے کر ہے۔ یونیورسٹی کا دعویٰ ہے کہ جگہ پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے لینڈ اینڈ لینڈ ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے ریکارڈ نکال کر امرتیہ سین کو سونپا اور کہا کہ کوئی ضبطی نہیں ہوئی ہے۔ پروفیسر سین نے بولپور کورٹ میں اس تعلق سے کیس کیا ہے اور معاملے کی سماعت 13 جون کو ہونی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔