امرتیہ سین بھی بھگوا سیاست کے شکار

جہاں تک پروفیسر سین کا معاملہ ہے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ موصوف مودی حکومت کے خلاف آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اس حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر خصوصاً سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>امرتیہ سین / Getty Images</p></div>

امرتیہ سین / Getty Images

user

سراج نقوی

عالمی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات اور نوبیل انعان یافتہ امرتیہ سین کے خلا ف ’وشو بھارتی‘ کے وائس چانسلر کی طرف سے جاری منافقانہ کارروائیوں کا عالمی سطح پر نوٹس لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں صدر جمہوریہ کو 304 دانشوروں کی طرف سے جو خط بھیجا گیا ہے اس میں نوبیل انعام یافتہ دو امریکی ماہرین اقتصادیات بھی شامل ہیں۔ ان دانشوروں نے صدر جمہوریہ دروپدی مورمو کو لکھے گئے اپنے خط میں ان سے شکایت کی ہے کہ ’وشو بھارتی‘ کے وائس چانسلر بدیوت چکرورتی امرتیہ سین کو ان کے گھر کی ملکیت کے سلسلے میں نشانہ بنا رہے ہیں یہ گھر شانتی نکیتن یونیورسٹی کے پاس ہے۔

ایک انگریزی روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق سین کا یہ گھر گزشتہ اپریل میں بنا ہے اور شانتی نکیتن یونیورسٹی کے قریب ہے۔ اس کا رقبہ 1.38ایکڑ ہے۔ یونیورسٹی وائس چانسلر کا الزام ہے کہ امرتیہ سین کے اس گھر میں 0.13 ایکڑزمین یونیورسٹی کی ملکیت ہے اور نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات نے اس زمین پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یونیورسٹی کے اس موقف کے خلاف امرتیہ سین نے کولکاتا ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، جہاں یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔ لیکن جہاں تک ’وشوبھارتی‘ کے وائس چانسلر کا تعلق ہے تو ان کی طرف سے بے بنیاد اور متنازعہ کارروائیاں کیے جانے کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موصوف طلباء کے غیر قانونی اخراج، اساتذہ کی غیر قانونی معطلی، دیگر ملازمین کی غیر قانونی برخواستگی، یونیورسٹی کے ملازمین و افسران کے حق اظہار رائے کو سلب کرنے انھیں تفریق آمیز رویے کا شکار بنانے، بے سبب وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرنے، سمیت دیگر منافقانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وائس چانسلر کی ان حرکات یا غیر مناسب کارروائیوں کا سبب کیا ہے؟


دراصل معاملہ یہ ہے کہ مرکز کے زیر انتظام آنے والی یونیورسٹیوں میں وی سی کی تقرری ریاستی گورنر کے ذریعہ ہوتی ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان گورنروں کا تقرر مرکزی حکومت کے مشورے سے صدر جمہوریہ کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس طرح یہ گورنر بالواسطہ طور پر مرکز کے یا صدر جمہوریہ کے نمائیندے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک آئینی صورتحال ہے، اور مودی حکومت سے پہلے بھی گورنروں کے رول پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ مختلف مواقع پر یہ الزام بھی گورنروں پر لگتا رہا ہے کہ وہ ریاستوں میں آئین کے تحفظ اور ریاستی حکومت کے مشوروں کے مطابق کام کرنے کی بجائے ریاست کو مرکز کے اشارے پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کوشش میں اپنی آئینی ذمہ داریوں کو بھی پس پشت ڈال کر کسی مخصوس پارٹی کے نمائندے بن کر اس کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتے ہیں۔ لیکن گورنروں پر پہلے ہی سے لگتے آرہے اس الزام کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی حکومت کے گزشتہ 9 سال کے اقتدار میں گورنروں کا رول جتنا تنازعات کا شکار رہا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں رہا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے جن افراد کو کسی مخالف پارٹی کی ریاستی حکومت میں گورنر بنا کر بھیجا وہاں پر کئی گورنروں نے اپنے آئینی دائرے سے باہر آکر اور مرکزی حکومت کے مفادات یا پھر یوں کہیں کہ گورنر بننے سے پہلے کی اپنی سیاسی پارٹی کے مفادات کو سامنے رکھ کر کام کیا، اور اس طرح کسی ریاست میں کسی مخالف پارٹی کو ملے عوامی فیصلے کو اپنے منمانے رویے سے سبوتاژ کرنے کی کوششیں کیں۔مہاراشٹر،دلّی،مغربی بنگال سمیت دیگر کئی ریاستوں کے موجودہ یا سابق گورنروں کے طرز عمل پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات ثابت ہو جائیگی۔ خصوصاً مغربی بنگال اس معاملے میں 9 سال سے وزیر اعلیٰ اور گورنر کے درمیان سیاسی جنگ کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ یہ الگ بات کہ گورنر اپنے عمل کو آئین سے جوڑ کر عوام کی منتخب کردہ حکومت کو ستانے کے جوا زتلاش کرتے رہتے ہیں۔

بہرحال جب صورتحال یہ ہو تو گورنروں کے ذریعہ ہونے والی وائس چانسلروں کی تقرری کو بھی سیاست سے پاک نہیں مانی جا سکتی۔ یہی معاملہ مغربی بنگال کی ’وشو بھارتی‘ یونیورسٹی کا بھی ہے، جہاں اس وقت بدیوت چکرورتی وائس چانسلر ہیں۔ چکرورتی کے بہت سے فیصلے اس لیے تنازعات کے شکار رہے ہیں کہ ان میں ریاست کی حکمراں جماعت کے حامیوں سے بغض اور ان کے خلاف منافقانہ کارروئی کو محسوس کیا گیا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی میں اس سطح پر وائس چانسلر کی روز مرہ کے انتظامی فیصلوں میں مداخلت نہیں ہوتی جیسا کہ ’وشو بھارتی‘ سے متعلق فیصلوں میں بدیوت چکرورتی کی نظر آتی ہے۔


یونیورسٹیوں کو کیونکہ کئی معنوں میں خود مختار ادارے کا درجہ حاصل ہوتا ہے اس لیے وہاں کے اسٹاف کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور الیکشن لڑنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ لیکن چکرورتی نے کئی مواقعہ پر یونیورسٹی اسٹاف کی اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے۔سیاسی اسباب سے طلباء یا تدریسی اسٹاف کو معطل حتیٰ کہ برطرف تک کیا گیا ہے۔

جہاں تک پروفیسر امرتیہ سین کا معاملہ ہے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ موصوف مودی حکومت کے خلاف آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اس حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر خصوصاً سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں وزیر اعظم نے جب بھوپال کے ایک جلسے میں یکساں سول کوڈ کا مسئلہ اچانک چھیڑا تو امرتیہ سین نے بہت واضح الفاظ میں مودی حکومت کی اس کوشش کو ”ہندو راشٹر کی تعمیر کی سمت میں اٹھایا گیا پہلا قدم قرار دیا تھا۔“ اسی طرح جب مودی حکومت نے غیر مسلموں کو ہندوستان کی شہریت دینے کا قانون پاس کیا تو امرتیہ سین نے اس پر بھی سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ،”حکومت غیر مسلموں کو ہندوستان کی شہریت دینے کی بات کر رہی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ روہنگیاؤں کے لیے اس کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔“مودی حکومت کے ذریعے لیے گئے نوٹ بندی کے فیصلے پر بھی امرتیہ سین تنقید کر چکے ہیں اور اس کے جواب میں بی جے پی کی ’اندھ بھکت منڈلی‘ کی بیہودہ تنقید کا نشانہ بھی بن چکے ہیں۔ بہرحال امرتیہ سین کے مودی یا بی جے پی مخالف تبصروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ظاہر ہے اپنے سیاسی مخالفین کو مختلف طریقوں سے ٹھکانے لگانے کے لیے بدنام بھگوا حکومت امرتیہ سین کے ان تبصروں کو برداشت نہیں کر سکتی، اس لیے کہ یہ اس کے مزاج اور فکر کے خلاف ہے، لیکن اب انھیں جس طرح ’وشو بھارتی‘ کے وائس چانسلر کے ذریعہ پریشان کیا جا رہا ہے اس کے پس پشت ایک بہت ہی سطحی سیاست کو دیکھا جا سکتا ہے، اس لیے کہ سیاسی رقابت کے اس کھیل میں ایک بڑے تعلیمی ادارے کے وائس چانسلر کو آگے کرکے ’وشو بھارتی‘ کے کردار کو بھی مسخ کیا جا رہا ہے اور امرتیہ سین جیسے عالمی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات کو سطحی انداز سے پریشان کیا جا رہا ہے۔


سین کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ بی جے پی ور اس کے حکمرانوں پر بے خوف ہوکر تنقید کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ اپریل میں ہی وشو بھارتی انتظامیہ نے امرتیہ سین کو مبینہ طور پر قبضہ کی گئی زمین کو خالی کرنے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کے گھر پر بلڈوزر چلانے کا نوٹس دیا تھا، لیکن جب ریاستی وزیر اعلیٰ نے وائس چانسلر کے اردوں کے خلاف خود کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو یونیورسٹی اتظامیہ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ حالانکہ جب یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو اس پر یونیورسٹی کو فی الحال کارروائی کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں ہے۔ بہرحال یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے امرتیہ سین کو مسلسل ستائے جانے کے خلاف جن 304 دانشوروں نے صدر جمہوریہ کو خط لکھا ہے ان میں نوبیل انعام یافتہ دو امریکی ماہرین اقتصادیات بھی شامل ہیں۔اس طرح سین کو پریشان کیے جانے کا معاملہ بھی اب ملک کی سرحدوں سے باہر نکل کر دوسرے ملک میں ہندوستان کی موجودہ حکومت کی منمانی اور سیاسی رقابت کے گندے کھیل کے سبب بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔ صدر جمہوریہ ظاہر ہے ایسے کسی معاملے پر کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، لیکن اس کے سبب جو بدنامی ہو رہی ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے یہ پیغام بھی دنیا میں جا رہا ہے کہ ہماری حکومت کے کچھ کارندے تعلیمی اداروں کے ذمہ دار عہدوں پر بیٹھ کر ملک کے نامور ماہرین تعلیم اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حکومت مخالف افرادکو کس سطح تک جا کر پریشان کر رہے ہیں۔امرتیہ سین بھی دراصل اسی بھگوا سیاست کے شکار ہو رہے ہیں کہ جس کو ہتھیار بنا کر اب تک دیگر دانشوروں کی زبانوں پر تالے ڈالنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔