گیان واپی مسجد کا اب نہیں ہوگا سروے، الٰہ آباد ہائی کورٹ نے لگائی روک
یو پی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے ذریعہ عدالت میں داخل عرضی میں کہا گیا تھا کہ اس تنازعہ سے جڑا ایک معاملہ پہلے سے ہی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، اس لیے وارانسی کی عدالت کو حکم صادر کرنے کا کوئی اختیار نہیں
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے وارانسی کے کاشی وشوناتھ مندر احاطہ میں گیان واپی مسجد کے ’اے ایس آئی سروے‘ پر روک لگا دی ہے۔ ہائی کورٹ نے وارانسی کی عدالت میں اس معاملے سے متعلق دیگر سبھی کارروائی پر بھی روک لگا دی۔ وارانسی کے سینئر ڈویژن سول جج نے اپریل میں اے ایس آئی کو سروے کا حکم دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے بحث پوری ہونے کے بعد 31 اگست کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ متنازعہ زمین کا سروے اے ایس آئی سے کرائے جانے کو مسجد کی انتظامیہ کمیٹی اور یو پی سنی سنٹرل وقف بورڈ نے چیلنج پیش کیا تھا۔
مسجد انتظامیہ کمیٹی اور یو پی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے ذریعہ عدالت میں داخل عرضی میں کہا گیا تھا کہ اس تنازعہ سے جڑا ایک معاملہ پہلے سے ہی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ ایسے میں وارانسی کی عدالت کو اس طرح کا حکم پاس کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ غلط حکم ہے اور اسے منسوخ کر دینا چاہیے۔ جسٹس پرکاش پاڈیا کی سنگل بنچ نے اس معاملے میں آج فیصلہ سنایا اور وارانسی کی عدالت کے فیصلے پر عمل آوری سے روک دیا۔
عرضی دہندہ کے وکیل وشنو شنکر جین نے کہا کہ دو ہفتے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ میں اس معاملے کی سماعت ہوگی، اسی وقت ہم اسے بھی ہائی کورٹ کے سامنے رکھیں گے۔ دراصل گیان واپی مسجد فریق اے ایس آئی سروے کرانے کے حق میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے سول جج کے فیصلے کے خلاف یو پی سنی سنٹرل بورڈ آف وقف اور اس کے بعد انجمن انتظامیہ مساجد نے رویجن/نگرانی عرضی داخل کی۔
واضح رہے کہ وارانسی میں گیان واپی احاطہ میں مندر تھا یا مسجد، اسے لے کر طویل مدت سے بحث جاری ہے۔ اس معاملے میں عدالت میں 1991 سے کیس چل رہا ہے۔ 8 اپریل 2021 کو سول جج سینئر ڈویژن فاسٹ ٹریک عدالت کی جانب سے اے ایس آئی سروے کا حکم دیا گیا تھا۔ عدالت کے حکم کے مطابق ’مرکزی آثارِ قدیمہ سروے‘ 5 رکنی ماہرین کی ٹیم بنا کر گیان واپی احاطہ کی کھدائی کر مذہبی باقیات یا شیولنگ ہونے کا پتہ لگیا جائے گا۔ اس فیصلے کے خلاف انجمن انتظامیہ مساجد نے 5 جولائی کو نگرانی عرضی داخل کر چیلنج پیش کیا تھا۔ اس سے قبل 30 اپریل کو ہی سنی سنٹرل بورڈ آف وقف نے نگرانی عرضی داخل کی تھی۔ اسی معاملے میں مندر فریق کی جانب سے رویجن (نظرثانی) نہیں کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مندر فریق کے ذریعہ داخل حلف نامہ میں سنسکرت سے لے کر انگریزی تک ان تمام کوڈ کا تذکرہ کیا گیا جن میں مندر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔