احمد پٹیل کو وقت نے ایسے وقت چھین لیا جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی: سونیا گاندھی
’میں کسی بھی حالت میں ان پر بھروسہ کر سکتی تھی۔ وہ ہمیشہ پارٹی کے مفاد کی بات کرتے تھے۔ انھیں مسائل کو حل کرنے والا، مشکل کشا کہا جاتا تھا‘
میرے لیے یقین کر پانا مشکل ہے کہ احمد پٹیل نہیں رہے۔ چار دہائیوں تک وہ گجرات اور قومی سطح پر انڈین نیشنل کانگریس کا اٹوٹ حصہ رہے۔ سیاست میں ان کا داخلہ اندرا گاندھی کی ترغیب سے ہوا اور راجیو گاندھی نے انھیں بڑا کردار سونپا۔ میں خود جب سے کانگریس صدر بنی، ایک بھروسہ مند ساتھی کے طور پر وہ ہمیشہ میرے ساتھ کھڑے رہے۔ وہ ایسے انسان تھے جن سے میں کبھی بھی صلاح لے سکتی تھی۔ کسی بھی حالت میں ان پر بھروسہ کر سکتی تھی۔ وہ ہمیشہ پارٹی کے مفاد کی بات کرتے تھے۔ انھیں مسائل کو حل کرنے والا، مشکل کشا کہا جاتا تھا۔ وہ حقیقت میں ایسے ہی تھے، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اہم۔ وہ اعتماد سے بھرپور شخصیت تھے اور ان کی صلاح میرے لیے ’ڈائریکٹر آف پالیسی‘ کی طرح ہوتی تھی۔ ان کا بے وقت چلے جانا ہمارے لیے بے پناہ دکھ کا موضوع ہے۔
میں انھیں ’احمد‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ بڑے ہمدرد انسان تھے۔ دباؤ کے لمحات میں بھی بالکل پرسکون اور معتدل رہتے۔ کانگریس صدر اور متحدہ ترقی پذیر اتحاد (یو پی اے) کی چیئرپرسن کے طور پر میرے کردار میں وہ ہمیشہ میری طاقت بنے رہے۔ کسی بھی ضروری وقت پر ان تک پہنچ پانے کا بھروسہ نہ صرف عام کانگریس کارکنان بلکہ دوسری پارٹی کے لیڈروں کو بھی تھا۔ ان کی دوستی اور اثر کا دائرہ بے حد وسیع تھا اور میں ذاتی طور پر جانتی ہوں کہ کیسے دوسری پارٹیوں کے رہنما ان پر اعتماد کرتے تھے، ان کے ساتھ رشتوں کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ احمد بنیادی طور پر ایک تنظیمی شخص تھے۔ کانگریس کے اقتدار میں رہنے کے دوران بھی ان کی دلچسپی تنظیم میں ہی رہی۔ سرکاری دفتر، عہدہ، تشہیر میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی عوامی پہچان یا تعریف کی کبھی امید کی۔ لوگوں کی نظروں، سرخیوں سے دور خاموشی کے ساتھ لیکن بڑی ہنرمندی سے اپنا کام کرتے رہتے۔ شاید کام کرنے کے ان کے طریقے نے ان کی اہمیت اور ان کے اثر کو مزید بڑھا دیا تھا۔ سیاست سے جڑے لوگ چاہتے ہیں کہ لوگ انھیں دیکھیں، سنیں۔
احمد ان چند نایاب لوگوں میں سےتھے جو بیک گراؤنڈ میں رہتے ہوئے کسی اور کو سہرا لیتے دیکھنا پسند کرتے۔ بڑے عقیدتمند اور پوری طرح سیاسی سرگرمیوں میں رہنے کے بعد بھی شفاف طور سے ایک گھریلو شخص تھے۔ پھر بھی پارٹی اور اس کے مفادات کے لیے پوری طرح وقف۔انہوں نے اپنی پہنچ کا کبھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ آئینی اقدار اور ملک کی سیکولر وراثت میں ان کا اٹوٹ یقین تھا۔
احمد ہمیں چھوڑ کر جا چکے ہیں، لیکن ان کی یادیں ہمارے ساتھ ہیں۔ جب بھی کانگریس کی 1980 سے بعد کی تاریخ لکھی جائے گی، ان کا نام ایسے شخص کی شکل میں یاد کیا جائے گا جو پارٹی کی تمام حصولیابیوں کے مرکز میں رہا۔ ہم میں سے ہر کسی کو کبھی نہ کبھی جانا ہے، لیکن وقت نے احمد کو بڑے ظلم کے ساتھ ایسے وقت چھین لیا جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ کانگریس کو ان کی ضرورت تھی۔ ہندوستانی سیاست اور عوامی زندگی کو ان کی ضرورت تھی۔ ہمیں ان کی ضرورت تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Nov 2020, 9:02 AM