کرناٹک اور تمل ناڈو کے بعد مہاراشٹر میں بھی اٹھی گجراتی ’امول دودھ‘ کے خلاف آواز

وزیر ویکھے پاٹل نے مہاراشٹر حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے کرناٹک اور تمل ناڈو کی حکومتوں نے امول کے خلاف پالیسی اختیار کی ہے، ویسی ہی پالیسی مہاراشٹر حکومت بھی اختیار کرے۔

امول دودھ، تصویر آئی اے این ایس
امول دودھ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

گجرات کی مشہور کمپنی ’امول‘ کے دودھ کو لے کر کرناٹک اور تمل ناڈو میں تو تنازعہ سامنے آ ہی چکا ہے، اب مہاراشٹر میں بھی امول دودھ کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے۔ ریاستی وزیر رادھا کرشن ویکھے پاٹل نے ریاست کے ملک پرڈیوسر یونین سے اپنا وجود بچانے کے لیے امول کے خلاف کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے۔ اس سے قبل مہاراشٹر کے مشہور دودھ برانڈ ’گوکل‘ سے منسلک اور ملک پروڈیوسر یونین کے سربراہ ارون ڈونگلے نے احمد نگر میں ویکھے پاٹل سے ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد ریاست کے ریونیو، مویشی پروری اور ملک ڈیولپمنٹ وزیر رادھا کرشن ویکھے پاٹل نے کہا کہ امول دودھ کی جارحانہ توسیع کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ریاست کے سبھی ملک یونین متحد ہو جائیں۔

ویکھے پاٹل نے مہاراشٹر حکومت سے بھی اس سلسلے میں اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے کرناٹک اور تمل ناڈو کی حکومتوں نے امول کے خلاف پالیسی اختیار کی ہے، ویسی ہی پالیسی مہاراشٹر حکومت بھی اختیار کرے۔ گوکل ملک یونین کے چیف کے ساتھ مہاراشٹر کے دودھ کاروبار کے سامنے آنے والے چیلنجز پر تبادلہ خیال کے بعد ویکھے پاٹل ریاست کے مہانند ملک یونین کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کرنے والے ہیں۔


کچھ دنوں پہلے کی ہی بات ہے جب کرناٹک میں امول دودھ کی سرگرم مارکیٹنگ کے خلاف وہاں کے مقامی دودھ برانڈ ’نندنی‘ کو بچانے کے لیے امول دودھ کے خلاف مہم شروع ہوئی۔ امول دودھ سے منسلک آنند ملک یونین لمیٹڈ پر الزام ہے کہ یہ تیز طرار مارکیٹنگ اور دودھ پروڈیوسر کسانوں کو زیادہ پیسے دینے کا لالچ دے کر مقامی دودھ برانڈ کے بازار کو تباہ کرنے پر آمادہ ہے۔

اگر کرناٹک میں موجودہ صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ امول ٹونڈ دودھ جہاں 54 روپے لیٹر ملتا ہے، وہیں کرناٹک کا نندنی دودھ صرف 39 روپے لیٹر فروخت ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک کلو امول دہی جہاں 66 روپے میں فروخت کیا جاتا ہے، وہیں نندنی دہی صرف 47 روپے کلو ملتا ہے۔ اس کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ کرناٹک کے نندنی دودھ کو امول دودھ سے خطرہ ہے؟ دراصل نندنی دودھ اور دہی کی قیمت کم ہونے کی وجہ وہاں کی حکومت کی طرف سے اسے دی جانے والی سبسیڈی ہے۔ دودھ-دہی عوام کے لیے ضروری پروڈکٹس مانے جاتے ہیں، اس لیے وہاں کی حکومت اس کی قیمت کو قابو میں رکھنے کے لیے سبسیڈی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف بنگلورو کے 70 فیصد دودھ مارکیٹ پر بلکہ 7 ریاستوں تک نندنی کا بازار پھیلا ہوا ہے۔


اگر امول کی بات کی جائے تو اس کا بازار 28 ریاستوں میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ جان کر حیرانی ہو سکتی ہے کہ آخر امول کا کاروبار اتنا زیادہ کیسے پھیلا ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق نندنی سے 24 لاکھ دودھ پروڈیوسر جڑے ہوئے ہیں اور امول سے 36.4 لاکھ دودھ پروڈیوسر جڑے ہیں۔ امول بیشتر دودھ پروڈیوسرز کو زیادہ قیمت دے کر انھیں اپنے ساتھ جوڑے ہوئے ہے، اس سے نندنی کو خطرہ ہے۔ نندنی کا ٹرن اوور 19 ہزار کروڑ روپے کا ہے، جبکہ امول کا 61 ہزار کروڑ روپے کا۔ ایسے میں امول پیسے کے دَم پر نندنی کا وجود مٹانے کی کوشش میں ہے۔ اس لیے کرناٹک میں ’سیو نندنی‘ (نندنی کو بچاؤ) مہم چلائی گئی۔

تمل ناڈو میں بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ وہاں کے دودھ پروڈیوسرز کو بھی امول زیادہ قیمت دے کر دودھ خرید لیتا ہے اور مختلف انداز کا لالچ دے کر وہاں کے مقامی برانڈ ’آوِن‘ کے دودھ پروڈیوسرز کو دودھ فروخت کرنے سے روک رہا ہے۔ امول نے تمل ناڈو کی سرحد کے پاس آندھرا پردیش میں ایک پلانٹ تیار کیا ہے۔ اس پلانٹ سے وہ تمل ناڈو کے بازار میں گھسنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تمل ناڈو حکومت کے ڈیری ڈیولپمنٹ وزیر منو تھنگراج نے آوِن برانڈ کو بچانے کے لیے کسانوں سے دودھ کی خرید قیمت کو بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی پہلے جہاں کسانوں کو دودھ کا پیمنٹ 90 دنوں میں کیا جاتا تھا، اس کی بھی حد اب گھٹائی جا رہی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ امول دودھ پروڈیوسرز کسانوں کو 10 دنوں میں پیمنٹ کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔