عالم باعمل، پختہ مشق ادیب و محقق اور فصیح البیان خطیب حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری

خطہ پھلواری شریف اور بالخصوص خانوادہ پیر مجیبؒ میں جید علما، عربی و فارسی ادبیات کے ماہرین اور ذولسانین شعرا منصہ شہود میں آتے رہے ہیں۔ شاہ ہلال احمد قادریؒ اسی درخشندہ سلسلہ کی ایک نمایاں کڑی تھے۔

حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری
حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے

بتاریخ11محرم الحرام 1442ھ مطابق 31 اگست 2020ء بروز سوموار حضرت مولانا سید شاہ ہلال احمد قادری نے اس جہان فانی کو الوداع کہا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ سید شاہ ہلال احمد قادریؒ کی وفات سے ریاست بہار وجھارکھنڈ کی علمی و ادبی دنیا، خانقاہی نظام اور بالخصوص خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کا ماحول سوگوار ہوگیا ہے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت مرحوم و مغفور کی روح کو اعلیٰ مدارج پر فائز فرمائے۔ آمین اور تمام سوگواروں کو صبر و تحمل کی قوت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

باوثوق اطلاع کے مطابق ان کی ولادت بماہ شعبان 1377ھ مطابق 1959ءپھلواری شریف میں ہوئی۔ تحصیل علوم کی تکمیل اسی خانقاہ میں ہوئی پھر خانقاہ کے دارالعلوم میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ خوش گلو حافظ قرآن بھی تھے۔ 1977ء یعنی محض بیس سال کی عمر میں فقہ و اصول اور تفسیر و حدیث کی درسیات میں فارغ التحصیل ہوئے۔ حضرت مولانا سید شاہ امان اللہ قادری قدس سرہ‘ زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور تزکیہ نفس، تصفیہ باطن اور سلوک و طریقت کی منزلیں طے کرتے رہے۔


سید شاہ ہلال احمد قادریؒ کی شخصیت کثیر الجہات اوصاف کا مجموعہ تھی۔ وہ بیک وقت عالم باعمل، صاحب بصیرت بزرگ، ادیب و انشا پرداز اور پختہ مشق محقق بھی تھے۔ دینیات پر لائق استناد عبور رکھتے تھے۔ خطہ پھلواری شریف اور بالخصوص خانوادہ پیر مجیبؒ میں جید علما، عربی و فارسی ادبیات کے ماہرین اور ذولسانین شعرا منصہ شہود میں آتے رہے ہیں۔ شاہ ہلال احمد قادریؒ اسی درخشندہ سلسلہ کی ایک نمایاں کڑی تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس، رشد و ہدایت اور میدان تحقیق و تصنیف میں صرف کردی۔

راقم السطور نے 1980 کی دہائی کے آخری برسوں میں بی این کالج پٹنہ(پٹنہ یونیورسٹی) میں ایم اے فارسی(1988-90) کلاسوں کی بنیاد ڈالی تو مرحوم موصوف نے سال پنجم میں داخلہ لے کر شعبہ کے وقار میں اضافہ کردیا۔ ان ہی دنوں ان کو قریب سے دیکھنے پرکھنے کا موقع ملا۔ خانقاہی تعلیم و تربیت کے زیر اثر صلح کل، توکل اور اسوہ حسنہ پر تقریباً مکمل پابندی ان کے شعار زندگی میں داخل تھا۔ شگفتگی تحریر ان کا خاص وصف تھا۔ ایم اے فارسی کے فائنل امتحان میں ان دنوں دوپرچوں کے عوض دو سو نمبروں کے لئے تحقیقی مقالہ لکھنے کی سہولت مہیا تھی۔ مرحوم کے مقالہ کو پڑھ کر ممتحنوں نے ان کی تحقیق، حقائق کی ترتیب، تسلسل بیان اورشگفتگی پیش کش کی بھرپور تعریف کیں اور اس سال کے ایم اے فارسی پٹنہ یونیورسٹی میں ان کی کاوش کو افضل و احسن قرار دیا۔ تدریسی اور خانگی مصروفیات کی وجہ سے Ph.D کورس میں داخل نہ ہوئے جس کا راقم کو افسوس رہا۔


مرحوم ومغفور ہلال بابو نے Ph.D نہ کرنے کی بھرپائی اپنی تالیفات و تصنیفات کے ذریعہ کردی۔موصوف کا اولین تحقیقی و علمی کارنامہ 1997ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ انہوں نے اپنے مرشد حضرت مولانا شاہ امان اللہ قادریؒ کی سوانح و کارناموں پر تقریباً پانچ سو صفحات میں اپنی تحقیقی ہنرمندی اور طرز نگارش کے جوہر پیش کیے۔

ان کی دوسری تصنیف ”سیرتِ پیر مجیبؒ“ ہے۔ یہ کتاب بانی خانقاہ مجیبیہ حضرت تاج العارفین مخدوم شاہ محمد مجیب اللہ قادری قدس سرہ کے حالات و آثار پر تقریباً پانچ سو صفحات پر محتوی ہے۔ اس میں مرحوم موصوف نے تحقیق اور نکتہ سنجی کے تمام لوازم کی پیروی کی ہے اور بطور احسن کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی دیگر تصنیف ”یزید حقائق کے آئینے میں“ بھی گراں قدر اور معلومات افزا ہے۔ پھر ”القول السدید“ بھی ایک اہم تحقیقی کارنامہ ہے۔


ان کی ایک معرکة الآرا تصنیف بہ عنوان ”خانوادہ سیدہ زینب بنت فاطمة الزھرا رضی اللہ عنہما“ 2015ء مطابق 1436ھ میں زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظرعام پر آئی جو شائقین علم و ادب سے خراج تحسین حاصل کر رہی ہے۔ قطعات تاریخ اور مصادر و مراجع کے علاوہ دو سو سترہ صفحات پر بسیط یہ گراں مایہ تصنیف بھی اعلیٰ تحقیقی کارنامہ ہے۔ معلومات کا کوئی گوشہ تشنہ وضاحت نہیں رہا۔ یہ انمول ادبی شاہ کار صدیوں تک تشنہ کامانِ علم دین و ادب کی سیرابی کے سامان فراہم کرتا رہے گا۔

1437ھ مطابق2016ءمیں مرحوم مغفور کی ایک نہایت عمدہ ادبی کاوش، بے حد دل آویز و نظر زیب طباعت و کتابت کے ساتھ بہ عنوان ”نغمات الانس فی مجالس القدس“ دیدہ نواز ہوئی۔ عنوانِ کتاب عربی میں ہے لیکن محتویات فارسی اور اردو میں ہیں۔ تین سو چھتیس صفحات پر مشتمل اس تصنیف کے اوّلین ایک سو صفحات پر مقدمہ مندرج ہے جس میں سماع اور مزامیر کے جواز میں حقائق اور دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ پھر چھپن شعرائے فارسی کے معروف و مقبول اور منتخب نعتیہ کلام کا مجموعہ ترتیب دیا گیا ہے۔ ہر ایک شاعرکے نعتیہ کلام کے ردیف وار ابجدی ترتیب کے ساتھ ان کے شگفتہ اردو تراجم بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس طرح عوام الناس کے لئے بہت زیادہ مفید ہوگئی ہے۔


موخر الذکر دو کتابیں راقم کو زیب سجادہ خانقاہ مجیبیہ حضرت مولانا شاہ آیت اللہ قادری لطفش زیاد نے گزشتہ سال عنایت فرمائی تھیں۔ سوائے ”القول السدید“ کے دیگر کل متذکرہ تصنیفات راقم کے پاس پہلے سے محفوظ تھیں۔ مذکورہ تصانیف کے علاوہ موصوف کے تحقیقی مقالے خانقاہ کے ترجمان ”المجیب“ کے صفحات کی زینت بھی بنتے رہے ہیں۔ ان کی تعداد بھی کئی درجن سے زیادہ ہے۔

بہار کی خانقاہوں سے معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بلاشبہ یہ خانقاہیں روحانی تربیت کی مرکزیں ہیں لیکن ان میں علمی و ادبی اور تحقیقی و تالیفی سرگرمیوں میں مایوس کن حد تک تنزل ساہوتا جارہا ہے ۔ راقم کی نظر میں بطور استثناء صرف دو خانقاہوں اس میدان علم و ادب میں بطور احسن سرگرم کار ہیں۔ اول تو داناپور کی خانقاہ میں زیب سجادہ محترم المقام بزرگوار سید شاہ (پروفیسر)طلحہ رضوی برق صاحب نے شمع علم و ادب اور بزم شعر و شاعری کو روشن رکھا ہے۔ دوسری قابل ذکر خانقاہ منعمیہ پٹنہ سیٹی کے زیب سجادہ پروفیسر سید شاہ شمیم احمد منعمی صاحب نے اس سمت لائق اطمینان سرگرمیاں بحال کر رکھی ہیں۔ منعمی صاحب نے تو نادار و مستحق ذہین طلبا کی حوصلہ افزائی کے لئے کئی قسم کی امداد ی اسکیمیں بھی جاری کر رکھی ہیں جن کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اطلاعات کی بنیاد پر وثوق کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ خانقاہ منعمیہ پٹنہ سیٹی روحانی تربیت کا مرکز ہونے کے باوجود چراغ علم و ادب کو فروزاں رکھنے اور مزید برآن فلاحی کارگزاریوں میں بھی ریاست کی صف اوّل کی خانقاہوں کے درمیان مقام اوّل پر جلوہ کناں ہے۔ اللہ ان کے عزائم کو بلندی عطا فرمائے اور خواص و عوام کی حسب منشا خوب سے خوب تر خدمات انجام پذیر ہوتی رہیں۔ آمین۔

(مضمون نگار مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔