اردو ادب کا خاموش خادم، یعقوب یاور

یعقوب یاور کا اصل نام یعقوب علی خاں ہے۔ قلمکاری کے میدان میں آئے تو یاور تخلص رکھا اور اردو ادب کی دنیا میں یعقوب یاور کے نام سے شناخت قائم کی۔

یعقوب یاور
یعقوب یاور
user

جمال عباس فہمی

کوئی اردو ادیب اگر چھیالیس کتابوں کا مصنف، شاعر، مترجم، ترتیب کار اور مولف ہو۔ اس نے تحقیقی اور تنقیدی کتابیں بھی تحریر کی ہوں۔ ناول بھی لکھے ہوں۔ شاعری بھی کی ہو۔ انگریزی کے شاہکار ناولوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہو، اس کی متعد کتابیں پاکستان میں بھی شائع ہوئی ہوں۔ اس کی حیات اور اردو ادب کے لئے خدمات پر اردو اس کالر نے تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا ہو اور یہ سب اس نے نام و نمود کی چاہت اور صلے کی پرواہ کئے بغیر خاموشی سے کیا ہو، تو اس قبیل اور حیثیت کا ادیب کوئی معمولی قلمکار تو ہوگا نہیں۔ یقینی طور وہ بہت لائق، فائق قابل، دیدہ ور اور دانشور ہوگا۔ جی ہاں اردو کے اس خاموش خادم کو ڈاکٹر یعقوب یاور کہا جاتا ہے۔ یعقوب یاور کی ادبی حیثیت اور تخلیقانہ صلاحیتوں پر بات کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت پر نگاہ ڈال لینا بہتر ہے۔

سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری

یہ فخریہ اعلان مرزا غالب نے کیا تھا۔ یہی دعویٰ اردو کا ایک اور شاعر اور مصنف کرتا ہوا نظر آتا ہے، اور وہ ہے یعقوب یاور، یعقوب یاور کے آبا و اجداد افغانستان سے تعلق رکھتے تھے اور پیشے کے اعتبار سے سپہ گر تھے۔ محمد غوری کی فوج کے ساتھ ہندوستان آئے تھے۔ محمد غوری نے سلطنت قائم کی اور قتل کر دیا گیا اور یعقوب یاور کے اجداد ہندوستان میں ہی بس گئے۔ انہوں نے اتر پردیش کے ضلع فتح پور کے گاؤں کوٹ کو اپنا مسکن بنایا اور وہاں کے زمین دار بن گئے۔


یعقوب یاور کا اصل نام یعقوب علی خاں ہے۔ قلمکاری کے میدان میں آئے تو یاور تخلص رکھا اور اردو ادب کی دنیا میں یعقوب یاور کے نام سے شناخت قائم کی۔ اسکولی ریکارڈ کے مطابق یعقوب یاور کی پیدائش 61 اکتوبر1952 کو کوٹ میں ہوئی۔ لیکن اصل تاریخ پیدائش22 نومبر 1952 ہے۔ یعقوب یاور کو بعض وجوہ سے ہجرت کرکے 1972 میں بھوپال آنا پڑا۔ دسویں درجہ تک پڑھائی فتح پور کے کوٹ میں ہوئی۔ بقیہ تعلیم بھوپال میں حاصل کی۔ 1974 میں مراسلاتی طریقے سے انٹر پاس کیا۔ اسی سال ریگولر طالب علم کے طور سے سیفیہ کالج میں بی اے سال دوم میں داخلہ لے لیا۔ 1976 میں گریجویٹ ہوگئے۔ 1978 میں ایم اے کیا۔ بی اے میں سب سے زیادہ نمبر اردو میں ہی آئے تھے، لیکن ارادہ کسی اور سبجیکٹ میں ایم اے کرنے کیا تھا لیکن عبدالقوی دسنوی کے مشورے پر اردو میں ایم اے کرنے کا فیصلہ کیا۔ یعقوب یاور نے 1990 میں پی ایچ ڈی عبدالقوی دسنوی کی نگرانی میں ہی مکمل کی۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوعـ ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری تھا۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنے سے پہلے ہی یعقوب یاور کی قسمت نے یاوری کی اور وہ بنارس ہندو یونیورسٹی سے منسلک ایک گرلز کالج میں بحیثیت استاد ملازم ہو گئے۔ اس کے بعد وہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہو گئے اور پھر صدر شعبہ تک پہنچے۔ جولائی 2018 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

یعقوب یاور کئی حوالوں سے اپنی فکری پرواز کو سپرد قرطاس کرتے ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں۔ ناول نگار بھی ہیں۔ تحقیق اور تنقید ان کا خاص میدان ہے۔ شاعری، نثر نگاری اور تنقید کے میدان کے شہسوار ہونے کے ساتھ ساتھ یعقوب یاور ایک ماہر ترجمہ نگار بھی ہیں۔ وہ 20 سے زیادہ انگریزی کتابوں کو اردو قالب میں تبدیل کر چکے ہیں۔ یعقوب یاور کی پہلی مطبوعہ کتاب بھی ایک ترجمہ تھی۔ انہوں نے جرمن مصنف ہرمن ہیس کے ناول سدارتھ کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ ہرمن ہیس جرمنی کا صاحب طرز قلمکار ہے۔ 1877 میں پیدا ہوا ہونے والا ہیس ایک ناول نگار، افسانہ نگار، مضمون نگار، شاعر اور مصور تھا۔ 1962 میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کے کئی ناولوں پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ناول سدھارتھ گوتم بدھ کی خود کی بازیافت کے روحانی سفر پر مبنی ہے۔


یعقوب یاور طبع زاد ناول بھی خوب لکھتے ہیں اور دیگر زبانوں کے ناولوں کو اردو میں ترجمہ بھی اسی خوبی کے ساتھ کرتے ہیں کہ زبان بدل جانے کے بعد بھی اصل متن میں سر مو فرق نہیں آتا۔ کسی زبان کے شاہکار کو کسی دوسری زبان میں تبدیل کرنا بہت مشکل فن ہے۔ ہر زبان کا اپنا ایک مزاج اور آہنگ ہوتا ہے۔ ترجمہ نگار کو اس زبان کے مزاج اور آہنگ کی کما حقہ جان کاری ہونا بہت ضروری ہے۔ یعقوب یاور ترجمے کے فن سے بہت اچھی طرح واقف ہیں اور ترجمہ ان کا پسندیدہ شوق ہے۔ ترجمہ کے لئے وہ جن کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں اس سے ان کی علمی استعداد، زبان پر گرفت اور مزاجی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ یعقوب یاور کی ترجمہ نگاری پر معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کہتے ہیں کہ اردو میں مغربی ادب کے تراجم کی باگ ڈور تیرتھ رام فیروز پوری اور مظہر الحق علوی کے بعد یعقوب یاور نے سنبھالی ہے۔ یعقوب یاور کی بے شمار خوبیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ انگریزی، ہندی، فارسی اور جرمن زبانوں پر بھی کما حقہ دسترس رکھتے ہیں۔

یعقوب یاور نے غیر ملکی مصنفین کی 16 فکشن نگارشات کو اردو کا قالب عطا کیا ہے۔ مغربی مصنفوں میں یعقوب یاور کی پہلی پسند اگاتھا کرسٹی ہے۔ جاسوسی پر لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ اگاتھا کرسٹی کے 7 ناولوں کو یعقوب یاور نے اردو میں ترجمہ کیا ہے، کین فالیٹ کے 4، جرمن مصنف ہرمن ہیس کے 3، ماریو پوزو کے4، بورس پاسٹر نیک کے2، ہینری شیرئر کے 2، ڈان براؤن کے 2 اور وسنت دوے اور ہینرک ابسن کے ایک ایک ناول کا وہ اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر چکے ہیں۔ یعقوب یاور نے ہندوستان کے کئی انگریزی مصنفین کی 6 نان فکشن کتابوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان میں آئی جے پٹیل کی تحریر کردہ سردار پٹیل کی سوانح، جے کرشنا مورتی کی 4ک تابیں جن میں فلسفے کے موضوعات پر 2 کتابیں بھی ہیں اور سائنس کے موضوع پر دلیپ ایم سالوی کی ایک کتاب شامل ہے۔


یعقوب یاورچار ناول تحریر کر چکے ہیں۔ ان کے تحریر کردہ ہر ناول کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور کچھ کے ہندی ورزن بھی شائع ہوئے ہیں۔ دِل مْن dil mun ان کا سب سے زیادہ مقبول ناول ہے۔ ان کا یہ ناول پاکستان میں بھی شائع ہو کر مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ دِل مْن کے اردو میں تین ایڈیشن ہندی میں دو ایڈیشن اور انگریزی میں دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ دل من کا ہندی ورزن، پرلے سندھو کے نام سے شائع ہوا ہے۔ یہ ناول سندھ کی تہذیب اور تمدن کے پس منظر میں ایک نیم تاریخی نوعیت کا ناول ہے۔ دِل مْن میں سندھ کی تہذیب کے پس منظر میں ایک عورت کے انتقام کی داستان رقم کی گئی ہے۔ یعقوب یاور نے معاشرتی، جغرافیائی اور تاریخی شواہد کو یکجا کرکے اسے فکشن کا روپ دے دیا ہے۔

یعقوب یاور کا ایک اور شاہکار ناول ہے، جہاد۔ یہ، سنگ گراں ہے زندگی، کے نام سے پاکستان میں شائع ہوا ہے۔ ہندی میں جہاد کے دو ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں۔۔ یہ ناول گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد کی صورتحال پر مبنی ہے۔ جہاد، ناول ہندی میں سنگھرش، کے نام سے منظر عام پر موجود ہے۔ دل من، دھول دیپ اور عزازیل ہندی پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے ہندی میں بھی دستیاب ہیں۔ یعقوب یاور کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ الف، ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو غزلیات پر مشتمل ہے اور دوسرا، قلم گوید، نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ تیسرا شعری مجموعہ، بار زیاں، کے عنوان سے حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ انہوں نے ایک زمانے میں کالم بھی لکھے تھے۔ امروز، کے نام سے انہوں نے ان کالموں کو بھی کتابی شکل دے دی ہے۔ ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری، ان کا تحقیقی مقالہ تھا وہ بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔


تحریک و تعبیر۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اپنے تنقدی مضامین کو انہوں نے دو جلدوں میںْ مرغزار افکار، کے عنوان سے بھی شائع کیا ہے، افہام، بھی یعقوب یاور کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے یہ مضامین انہوں نے دس برسوں کے دوران تحریر کئے تھے۔ یعقوب یاور کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین کا ایک اور مجموعہ احتساب، کے نام سے موجود ہے۔ یعقو ب یاور نے ایک اہم کام آغا حشر کشمیری کے کلیات کو جمع کرکے شائع کرنے کا کیا ہے۔ کلیات آغا حشر کشمیری کو یعقوب یاور نے آٹھ جلدوں میں ترتیب دیا ہے۔ آغا حشر کشمیری پر یعقوب یاور کا یہ کام ادبی اور دستاویزی حیثیت کا حامل ہے۔ آغا حشر کشمیری کی اس کلیات میں ان کے اردو اور ہندی میں لکھے تمام ڈرامے اور شاعری یکجا کی گئی ہے۔ یعقوب یاور نے یہ کلیات آغا حشر کی ذاتی لائبریری سے استفادہ کرکے ترتیب دی ہے۔ اسی لئے اسے سب سے زیادہ معتبر قرار دیا جاسکتا ہے۔

جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو یعقوب یاور نے اس میدان میں چوبیس برس کی عمر میں قدم رکھا تھا اور وہ اس فن میں کسی کے شاگرد نہیں ہیں۔ بقول ان کے، شاعری کے میدان میں، میں نے کسی سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنے علم کی رہبری قبول کی۔ میرا کوئی استاد نہیں ہے۔ س لئے اچھا شعر پڑھ یا سن کر استاد کا نام پوچھنے والوں کو مایوسی ہوگی۔ داد اور پرداد دونوں کا مستحق میں خود ہی ہوں۔ یعقوب یاور کی شاعری کے سلسلے میں پروفیسر مظفر حنفی کہتے ہیں کہ اکٹر یعقوب یاور کی شاعری بیک وقت روایت سے انحراف بھی کرتی ہے اور اس کی پاسداری بھی کرتی ہے۔ اور یہ دو سرکش گھوڑوں پر سواری کرنے جیسا کوئی خطرناک عمل ہے۔ لیکن جب فن کا ایسے خطروں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ بر ہوتا نظر آئے تو نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں کی نگاہیں اسی پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ دوست تو دوست باضمیر دشمن بھی اسے داد دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔


نمونے کے طور پر یعقوب یاور کے کچھ اشعار پیش ہیں۔

بو جہل کا عتاب ہو یا سنت رسول

اب ہم کہیں نہ جائیں گے ہجرت بہت ہوئی

.....

خرد کی پشت میں یاور کہیں پر دل لکھا دیکھا

اسی دشت جنوں میں اپنا مستقبل لکھا دیکھا

.....

بر سر پیکار ہیں سب بے ضمیری کے سبب

کیا چراغ مصطفی اور کیا شرار بو لہب

.....

سن لو ہم جیسوں کو کل ہم بھی رہیں یا نہ رہیں

ہم وہ ہیں جن کی زباں پر ابھی تالے نہیں ہیں

.....

میں اپنا سچ کہیں محفوظ رکھ پاتا ترے سچ سے

کہ میرا سچ ہمیشہ تیرے سچ سے ہار جاتا ہے

ڈاکٹر یعقوب یاور کی ادبی حیثیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی حیات اور ادبی خدمات پر سرحد کے دوسری طرف تحقیقی مقالہ لکھا گیا۔ لاہور یونیورسٹی کے اردو شعبہ کی ریسرچ اس کالر ثمرہ اطہر نے ایم ایس کی ڈگری کے لئے مقالہ کا موضوع ڈاکٹر یعقوب یاور کو بنایا۔ ان کے مقالہ کا عنوان ہے۔ ڈاکٹر یعقوب یاور کے ناولوں کا تجزیاتی مطالعہ۔ ثمرہ اطہر نے یہ مقالہ ڈاکٹر قدیر انجم باجوہ کی نگرانی میں تحریر کیا۔ ڈاکٹر یعقوب یاور اور ان کی کئی کتابوں کو انعامات و اعزات سے بھی نوازہ جا چکا ہے۔ ان کی ترجمہ نگاری پر بھی انہیں انعام سے سرفراز کیا گیا۔ ترجمے کے حوالے سے انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے اتر پردیش اردو اکیڈمی کی جانب سے نوازہ گیا تھا لیکن شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے ایک لاکھ روپئے مالیت کا یہ ایورڈ واپس کرکے اپنی زندہ ضمیری کا ثبوت دیا تھا۔ ڈاکٹر یعقوب یاور کو کورونا وبا نے ایک بڑے صدمے سے دوچار کیا۔ اپریل2021 میں ان کی اہلیہ کورونا کی شکار ہوکر دنیا سے سدھار گئی تھیں۔


یعقوب یاور کی بڑی بیٹی ناہید فاطمہ تصنیف و تالیف میں اپنے باپ کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ انہوں نے اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ پی ایچ ڈی کے لئے ان کے مقالے کا موضوع، انیسویں صدی اور اردوزبان، تھا۔ یہ مقالہ کتاب کی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔ ناہید فاطمہ کی ایک اور کتاب، اردو شاعری کی مختصر تاریخ، کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔ یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا ہے۔ ادبی مزاج کے اعتبار سے باپ بیٹی میں بہت یکسانیت ہے۔ دونوں کا مزاج تحقیقی و تنقید ی ہے۔ ڈاکٹر یعقوب یاور کو اپنی اس بیٹی سے امید ہے کہ وہ ان کی ادبی روایت کو آگے بڑھائے گی۔ نام و نمود سے دور، انعام و کرام کی چاہت سے پرے اور کسی صلے کی پرواہ کئے بغیر ڈاکٹر یعقوب یاور گوشہ نشینی میں لکھنے اور پڑھنے میں مصروف ہیں۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یعقوب یاور جس پایہ کے قلمکار ہیں اور اردو ادب کی جتنی بیش بہا خدمت وہ انجام دے رہے ہیں۔ اس کی مناسبت سے اردو والوں نے انہیں اب تک نہیں نوازہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔