حجاب تنازع کا زیادہ بڑھنا ٹھیک نہیں... سہیل انجم

کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب تک یوپی کے انتخابات ختم نہیں ہو جاتے تب تک حجاب معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا یا دانشمندی کے ساتھ اس کی حمایت کی جاتی۔

حجاب کے حق میں مظاہرہ کا منظر / تصویر یو این آئی
حجاب کے حق میں مظاہرہ کا منظر / تصویر یو این آئی
user

سہیل انجم

کرناٹک کے ایک چھوٹے سے شہر اڈوپی کے ایک پری یونیورسٹی کالج میں کلاس روم میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کا تنازع اب ملکی سرحدوں کو عبور کرکے عالمی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ پہلے نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے حجاب کی حمایت میں ٹوئٹ کیا اور اس کے بعد دیگر عالمی شخصیات نے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کیا۔ اب مذہبی آزادی سے متعلق امریکی ادارے آئی آر ایف نے بھی اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور اس کے سفیر رشاد حسین نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ مذہبی آزادی کے ذیل میں اپنی پسند کے لباس کا انتخاب بھی شامل ہے اور اگر کسی تعلیمی ادارے میں حجاب پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے کرناٹک حکومت پر تنقید کی ہے۔

یہ معاملہ پہلے کرناٹک کے دوسرے شہروں میں پہنچا اور پھر اس نے ریاستی سرحدیں عبور کیں اور دوسری ریاستوں میں اس کی گونج سنائی دینے لگی۔ مختلف شہروں میں حجاب کی حمایت میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور مسلم خواتین کرناٹک کی مسلم طالبات کے حجاب کے حق میں سڑکوں پر اتر آئی ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی حجاب کی حمایت میں مظاہرے جاری ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے بھی حجاب پر پابندی کے لیے ہندوستان کی مذمت کی ہے۔ پاکستان کے اردو اخبارات اس سلسلے میں کالم پر کالم چھاپ رہے ہیں۔


ان مظاہروں میں ایک طالبہ مسکان خان کے نعرۂ اللہ اکبر سے تیزی آگئی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح درجنوں ہندو طلبہ نے جو کہ بھگوا رومال گلے میں لٹکائے ہوئے تھے اس طالبہ کو ہراساں کر رہے تھے اور اس کی جانب تیزی سے بڑھتے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے مسکان نے جو جواب دیا وہ فطری تھا۔ اس کی اس جرأت مندی کی ستائش ہونی چاہیے تھی اور خوب ہو بھی رہی ہے۔ یہ کتنی بڑی بزدلی اور بے شرمی کی بات ہے کہ درجنوں لڑکے ایک یکہ و تنہا لڑکی کی جانب ٹوٹ پڑے۔ اب جو اس نے جے شری رام کے نعرے کے جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو سنگھ پریوار اور تمام فسطائی قوتیں تلملا اٹھی ہیں اور کرناٹک کے بعض بی جے پی رہنما اور خود وہاں کے وزیر تعلیم اس کے لیے طالبہ کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ حالانکہ اگر لڑکے اس کی جانب بڑھتے ہوئے جے شری رام کے نعرے نہیں لگاتے تو وہ بھی جوابی نعرہ نہیں لگاتی۔

کانگریس نے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب کی حمایت کی ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی اور کانگریس کے دوسرے لیڈروں نے بھی مسلم طالبات کے حجاب پہننے کی حمایت کی ہے۔ راہل گاندھی نے بجا طور پر کہا ہے کہ لباس کے بہانے ہمارے ملک کی لڑکیوں کے مستقبل کو چھینا جا رہا ہے اور انھیں تعلیم حاصل کرنے سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پرینکا گاندھی نے بھی بجا طور پر کہا ہے کہ عورتیں کیا پہنیں اور کیا نہ پہنیں اس کا فیصلہ خود انھیں کرنے دیجیے۔ کسی کو کسی دوسرے کو یہ ہدایت اور حکم دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ عورتیں کیا پہنیں اور کیا نہ پہنیں۔


اس معاملے پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی آواز اٹھی اور مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اس معاملے کو اٹھایا گیا اور وزیر داخلہ امت شاہ سے بیان دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن بی جے پی کے ارکان نے اس پر زبردت ہنگامہ کیا جس کی وجہ سے جمعہ کے روز اپوزیشن ارکان نے لوک سبھا سے واک آؤٹ کیا۔ کانگریس کے کئی رہنماؤں نے مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔

دریں اثنا یہ معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ میں بھی پہنچ گیا ہے اور تین رکنی بنچ اس پر سماعت کر رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ کیونکہ بہرحال ایک رکنی بنچ کے جج جسٹس دیکشت نے کہا تھا کہ اس معاملے میں کئی سنجیدہ آئینی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ حالانکہ تین رکنی بنچ نے یہ کہہ کر ایک اشارہ دے دیا ہے کہ جب تک فیصلہ نہ آجائے مذہبی لباس پر اصرار نہ کیا جائے۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید عدالت حجاب پر پابندی کو جائز ٹھہرائے، کیونکہ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ سبھی کو اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی ہے لیکن یہ آزادی لامحدود بھی نہیں ہے۔ وہ آئینی ضابطوں کی پابند ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جہاں ہر شخص کو اپنے مذہب کی پابندی کی آزادی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یونیفارم کی پابندی نہیں ہوتی۔ ہاں اسکولوں میں ہوتی ہے۔ کرناٹک کے جس اسکول سے یہ تنازع اٹھا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بائی لاز میں لکھا ہے کہ اگر حجاب دوپٹے کے رنگ کا ہو تو اس کی اجازت ہے۔ اگر ایسا ہے تو حجاب کی اجازت دی جانی چاہیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور وہاں کے ضابطے میں یونیفارم کی پابندی کا قانون ہے تو اس قانون کی پابندی کی جانی چاہیے۔

باوثوق ذرائع سے ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ اس تنازعے میں بی جے پی کی طلبہ شاخ اے بی وی پی اور ہندو سینا جیسی فاشسٹ تنظیموں کا ہاتھ ہے۔ کرناٹک کے ساحلی علاقوں میں مسلمان کافی خوشحال اور متمول ہیں۔ ان کی جانب سے حالیہ برسوں میں اپنی مذہبی شناخت کے اظہار کا رجحان بڑھا ہے۔ عوامی مقامات اور تعلیمی اداروں میں بھی برقعہ پوشی کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندوتوا نواز طاقتوں کو یہ بات پسند نہیں آرہی ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اڈوپی کے مذکورہ کالج میں حجاب کے نام پر مسلمانوں کو بھڑکانے کا ایک تجربہ کیا گیا۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ تجربہ بہرحال کامیاب ہے۔


بتایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرناٹک کی بی جے پی حکومت عوام میں بری طرح غیر مقبول ہو رہی ہے اور اگلے سال مارچ میں وہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں بی جے پی کی شکست واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ اسی لیے حجاب کا تنازع کھڑا کیا گیا تاکہ اس کے بہانے سے عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کیا جائے اور ریاست میں ایک ایسا ماحول بنایا جائے جو الیکشن میں بی جے پی کے لیے مفید ہو۔

فسطائی قوتوں کی اس سازش کو بے نقاب اور ناکام کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیمیں اس تنازع سے سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ ایسا جبھی ہو پائے گا جب یہ معاملہ طول نہ پکڑے۔ کیونکہ یہ جتنا طول پکڑے گا ہندوتوا نواز قوتوں کو اس کی بنیاد پر ہندووں کو متحد کرنے کا ایک موقع مل جائے گا۔ اب بعض مسلمانوں کی جانب سے اس معاملے میں ایسے بیانات دیئے جا رہے ہیں جو ٹھیک نہیں ہیں اور جو اس تنازعے کو اور ہوا دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا فائدہ مسلمانوں کو نہیں ہندوتوا نواز قوتوں کو ہوگا اور بالآخر بی جے پی کو ہوگا۔ اس لیے جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ حجاب کی حمایت میں مہم چلائی جائے، وہیں اس کی بھی ضرورت ہے کہ کوئی ایسا بیان نہ دیا جائے یا کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو ماحول کو اور خراب کرے۔


یوں بھی یہ ایشو کرناٹک سے نکل کر یوپی میں پہنچ گیا ہے۔ وہاں ابھی چھ مرحلوں کی پولنگ ہونی ہے اور اس تنازعہ کو ہوا دے کر کیسے سیاسی اور انتخابی فائدہ اٹھایا جائے اس میں بی جے پی ماہر ہے۔ اس لیے اگر یہ معاملہ زیادہ آگے بڑھتا ہے تو بی جے پی کو لامحالہ فائدہ ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب تک یوپی کے انتخابات ختم نہیں ہو جاتے تب تک اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا یا دانشمندی کے ساتھ حجاب کی حمایت کی جاتی۔ اس بارے میں حال ہی میں ختم ہوئی کسانوں کی تحریک سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جذباتیت سے بچیں اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے سے گریز کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔