اعتماد اور رواداری کی فضا میں بین المذاہب مکالمہ کی سخت ضرورت: پروفیسر رفعت علی
ڈاکٹر رفعت نے ہندوستان کے تناظر میں بھی کہا کہ ہم یہاں صدیوں سے آباد ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں نے ہندوازم کو سمجھنے کی کوشش کی۔
کلکتہ: اس استدلال کے ساتھ ہندوستان ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی کے حالات تناظر میں بین المذاہب مکالمہ کی سخت ضرورت ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ زبان و دل میں یکسانیت ہونی چاہیے، جادو پور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے پروفیسررفعت علی نے کہا کہ ایک دوسرے پر بھروسہ اور اعتماد کئے بغیر بین المذاہب مکالمہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔
’’بنگال انسی ٹیوٹ آف ملٹی کلچر اسٹڈیز‘‘ کے زیر اہتمام مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے مولانا آزاد آڈیٹوریم میں ’’اسلام، بین المذاہب مکالمہ اور کثیر الثقافتی: ڈاکٹر عطا اللہ صدیقی کی خدمات کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر رفعت علی نے کہا کہ ڈاکٹر عطا اللہ صدیقی کی پوری زندگی عبادت سے عبارت سے تھی، ان کا زندگی کا مشن ہی تھا اسلام کے پیغام کو سنجیدگی اور متانت سے اپنے قول و عمل سے برادران وطن تک پہنچنا۔ انہوں نے بین المذاہب مکالمہ کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ایمانداری کے ساتھ برابری کی سطح پر ایک دوسرے کو مذہب کو سمجھنے کی کوشش بین المذاہب مکالمہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ قول و عمل کے تضاد کی صورت حال میں ہم اپنا پیغام نہیں پہنچا سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ رواداری اور برداشت حقیقی مفہوم اپنے اندار اتارنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ رواداری کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ دنیا میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس میں خالق کائنات کی مصلحت ہوگی، مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے دین کے پیغام کو پہنچانا ہے مگر برتریت کے جذبے سے نہیں بلکہ بھائی چارہ اور اخوت کی سوچ سے اپنے پیغام کو پہنچانا چاہیے۔
انہوں نے ڈاکٹر رفعت صدیقی کی خدمات کا حوالے سے کہا کہ ان کا تعلق مغربی بنگال کے پہاڑی علاقہ کالمپونگ سے تھا۔ 80 کی دہائی میں وہ برطانیہ منتقل ہوئے اور وہیں انہوں نے برمنگھم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور یونیورسٹی آف گلوسٹر شائر سے اعزازی ڈاکٹریٹ حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے برطانیہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں اسلام اور عیسائیت کے تعلقات کے شعبے سے وابستہ رہے۔ ڈاکٹر عطااللہ صدیقی نے اپنی پوری عملی زندگی میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان بہتر تعلقات کے قیام کے لئے بہتر کوشش کی۔
ڈاکٹر رفعت علی نے ڈاکٹر عطا اللہ صدیقی کے حوالے سے کہا کہ وہ کہا کرتے تھے بڑی تعداد میں یورپ میں مہاجرین آباد ہوئے جس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد تھی۔ یورپ جو مذہب بیزار تھا اس نے کافی محنت سے کلیسا اور پادری کی برتریت سے نجات حاصل کی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ مذہب ذاتی زندگی تک محدود رہنا چاہیے مگر اسلام کا تصور یہ نہیں تھا۔ چناںچہ نائن الیون کے بعد یورپ نے اپنی سوچ اور فکر پر نظرثانی کی اور اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر رفعت نے کہا کہ جب یورپ اپنے رویے میں تبدیلی لاسکتے ہیں تو پھر کیا ہم اپنی سوچ میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر رفعت نے ہندوستان کے تناظر میں بھی کہا کہ ہم یہاں صدیوں سے آباد ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں نے ہندوازم کو سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنی شناخت اور پہنچان پر قائم رہتے ہوئے دوسرے مذاہب کو سمجھنے اور ان سے افہام و تفہیم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کی غنڈہ گردی کا جواب غنڈہ گردی نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔