علم عروض کا کیڑا ہیں ڈاکٹر شعور اعظمی... جمال عباس فہمی

ڈاکٹر شعور اعظمی ایک ایک ایسے شاعر اور مصنف ہیں جن کی عروض پر بہت مستحکم گرفت ہے۔ اگر انہیں علم عروض کا کیڑا کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔

<div class="paragraphs"><p>ڈاکٹر شعور اعظمی</p></div>

ڈاکٹر شعور اعظمی

user

جمال عباس فہمی

اردو عروض ایک نہایت مشکل فن ہے۔ ایک قادر الکلام شاعر بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ عروض کا ماہر ہے۔ اس فن کی بنیادی معلومات نہ ہونے کے سبب بڑے بڑے شعراء کا کلام عروضی غلطیوں سے پاک نہیں رہ پاتا۔ چونکہ یہ ایک مشکل فن ہے اس لئے عروض کے ماہرین کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے۔ ڈاکٹر شعور اعظمی ایک ایک ایسے شاعر اور مصنف ہیں جن کی عروض پر بہت مستحکم گرفت ہے۔ اگر انہیں علم عروض کا کیڑا کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ فن عروض میں ان کی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عروض پر ان کی تحریر کردہ کتابیں ممبئی یونیورسٹی کے بی اے اور ایم اے کے نصاب میں شامل ہیں۔

شعور اعظمی کا ایک عروضی کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نےعروض و قافیہ کی اصطلاحات کی فرہنگ بھی ترتیب دی ہے۔ انہوں نے عظیم مرثیہ گو شاعر میر انیس پر کئے گئے اعتراضات کا منہہ توڑ جواب دیتے ہوئے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ ان کی مدحیہ شاعری کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کے کلام کو بھی یکجا کر کے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر شعور اعظمی کے فن اور ادبی خدمات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفرکا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔


ڈاکٹر شعور اعظمی کا اصل نام قاسم مہدی اور تاریخی نام سید کلیم اختر ہے۔ یکم ستمبر1957 میں وہ اتر پردیش کے معروف ضلع اعظم گڑھ کے موضع چماواں میں پیدا ہوئے، شعور اعظمی کا تعلق علم و ادب میں ایک نمایاں مقام رکھنے والے خانوادے سے ہے۔ اردو کے معروف نقاد اور سیکڑوں عشقیہ اور سماجی ناولوں کے خالق پروفیسر سید مجاور حسین، شاعر اور اردو کے استاد پروفیسر سجاد باقر لاہوری اور ترقی پسند تحریک کے ابتدائی ستونوں میں شامل سید سبط حسن کے خانوادے کی ہی فرد سید غلام مہدی شعور اعظمی کے والد تھے۔ سید غلام مہدی اپنے دور کے استاد شاعر تھے اور مہدی اعظمی کے زیر تخلص مشق سخن کرتے تھے۔

شعور اعظمی کا شعری شعور ان کے والد کی تربیت کا ہی مرہون منت ہے۔ کم عمری میں ہی وہ شعرو سخن کی جانب راغب ہو گئے تھے۔ انہوں نے طبیہ کالج ممبئی سے ڈی یو ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، قدیم اور جدید دونوں طریقوں سے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ طبیعت کے لحاظ سے شعور اعظمی مشکل پسند واقع ہوئے ہیں۔ یہ مشکل پسند طبیعت کا ہی طفیل ہے کہ عروض جیسے مشکل علم میں انہوں نے مہارت حاصل کی۔ انہوں نے علم عروض سے متعلق لا تعداد کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عروض سے متعلق کم از کم پچاس کتابوں کے نام ان کے ذہن میں محفوظ ہیں۔ انہوں نے عربی اور فارسی کی عروض کی بھی واقفیت حاصل کی۔ انہوں نے عربی عروض کے ماہر خلیل ابن احمد اور فارسی کے علم کلام کے ماہر ناصر الدین الطوسی کی بصیرت اور لیاقت سے بھی کسب فیض کیا ہے۔


شعور اعظمی نے عروض پر دو بہت مفید اور گراں قدر کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی کتابوں 'شعور عروض' اور 'فرہنگ شعور' کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 'شعور عروض' ممبئی یو نیورسٹی کے بی اے کے نصاب میں شامل ہے اور 'فرہنگ شعور' ممبئی یونیورسٹی کے ایم اے کے نصاب کا حصہ ہے، 'شعور عروض' میں شعور اعظمی نے شاعری کی ہے اس کی تعریف بیان کی ہے، انہوں نے اصول تقطیع۔عروض الحاقی، علم ھجا۔ علم صرف و نحو، علم قوافی کے بارے میں بتایا ہے۔ اشعار کے ذریعے سخن کے محاسن اور عیوب بیان کئے ہیں، کلام کی اصناف اور اقسام، رکن اور بحر کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔

انہوں نے اسی کتاب میں نثر کی اصناف اور اقسام کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ 'فرہنگ شعور' شعور اعظمی کا عروضی کارنامہ ہے۔ اردو میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ یہ عروض اور قافیہ کی اصطلاحات کی فرہنگ ہے۔ شعور اعظمی کی عروضی مہارت اور علم کلام و بیان پر ان کی دسترس پر ممبئی یونیورسٹی کے اردو شعبہ کے صدر قمر صدیقی کا کہنا ہے کہ، ''شعور اعظمی کے روپ میں ہم بالمشافہ اردو سے مل سکتے ہیں۔ عام عروضیوں کی طرح شعور اعظمی کی تحریر میں گھنا پن نہیں ہوتا۔عروضی مسائل پر وہ واضح اور مدلل موقف رکھتے ہیں۔''


'فرہنگ شعور' میں شعور اعظمی اہل زبان سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ فن عروض کو اپنے استفادہ کے لئے حاصل کریں دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے لئے نہیں۔ 'فرہنگ شعور' میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ جس طرح کسی لغت میں کوئی لفظ آسانی سے ڈھونڈا جاسکتا ہے اسی طرح عروض و قوافی کی اصطلاحیں بھی آسانی سے ڈھونڈی جا سکیں۔ یہ کتاب عروض کی بنیادی باتیں جاننے والوں کے لئے بہت مفید ہے۔ اس میں عروض کی اصطلاحوں اور بحروں کی اقسام بھی بتائی گئی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرکب بحریں کون سی ہیں۔ مفرد بحریں کون سی ہے۔ حرف روی کسے کہتے ہیں۔ ردف کیا ہوتا ہے۔ کسی شعر کی تقطیع کےاصول کیا ہوتے ہیں۔ شعور اعظمی سخنوروں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ عروض کے بحر بے کراں کی تہوں میں اترنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اساتذہ کے کلام کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ دس بارہ بحروں اور دس بارہ زحافات سے زیادہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایک اور کانامہ جو شعور اعظمی نے انجام دیا ہے وہ عظیم مرثیہ نگار میر انیس کی شان میں کلیم الدین احمد کی ہزہ گوئی کا منہہ توڑ جواب ہے۔ شعور اعظمی نے وہ فرض کفایہ ادا کیا ہے جس کی ادائے گی ہر محب اردو اور ہر عاشق انیس پر واجب تھی۔ کلیم الدین احمد کی کتاب 'میر انیس' 1988 میں بہار اکیڈمی نے کلیم الدین احمد کے انتقال کے پانچ برس کے بعد شائع کی۔ کلیم الدین کی بد گوئی اور دریدہ دہنی کا جواب دینے کی کسی قلمکار نے اس لئے ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ صاحب معاملہ ہی دنیا میں موجود نہیں تو جواب بے اثر ہو جاتا، لیکن شعور اعظمی نے اس کے بر عکس فیصلہ کیا۔


انہوں نے 'ترکی بہ ترکی' کے نام سے 464 صفحات پر مشتمل کتاب اس لئے تحریر کی کہ اگر جواب نہ دیا گیا تو آنے والی نسلیں میر انیس کی شان میں کلیم الدین احمد کی بکواس کو درست مان لیں گی۔ میر انیس کی شاعری اور شخصیت پر کلیم الدین احمد کے معاندانہ جذبے کے تحت کئے گئے اعتراضات کا انہی کی زبان میں جواب دیکر شعور اعظمی نے اردو شاعری پر میر انیس کے احسانات کا کسی حد تک قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔ 'ترکی بہ ترکی' تحریر کرکے شعور اعظمی نے اردو ادب کے ناقدین کو بھی یہ باور کرایا کہ تنقید میں متانت اور اصولوں کی پاسداری ضروری ہے۔ بنیادی اصولوں کو پامال کرنے والی تنقید، تنقید نہیں ہوتی بلکہ تنقیص ہوتی ہے۔

جہاں تک شعور اعظمی کی شاعری کا معاملہ ہے تو عروض کے ماہر ہونے کے باوجود ان کی شاعری بوجھل نہیں ہے۔ ان کے یہاں آمد ہی آمد ہے عروضی مجبوریوں کے تحت آورد نہیں ہے۔ شاعری میں بھی ان کی جدت فکر نظر آتی ہے۔ بنت پیغمبر بی بی فاطمہ زہرا کی شان میں قصائد اور منقبتوں کو انہوں نے 'شعور مودت' کے عنوان کے تحت یکجا کیا ہے۔

دختر رسول اللہؐ کی شان میں ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے۔ کتنی سادگی کے ساتھ شعور اعظمی نے ان کی فضیلتیں بیان کی ہیں۔

ہیں نبی خیر البشر خیر النسا ہیں فاطمہ

صنف نسواں میں مثال مصطفی ہیں فاطمہ

.....

خدا راضی، نبی راضی رہیں جس کی تلاوت سے

مودت کا وہ قرآں ہے ثنائے فاطمہ زہرا

.....

اے مسلماں وقت آخر مصطفیٰ کا یاد کر

 اذن لیتی ہے قضا بنت شہ لالوک سے


شعور اعظمی نے مجموعہ ہائے کلام کی ترتیب میں بھی جدت طرازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ہر کلام کے ساتھ اس کی بحر اور اس کا وزن بھی درج کیا ہے۔

شعور اعظمی کی غزلوں کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔

عشق میں یارو کیسے کیسے عالم سے دو چار ہوئے

 اس نے پلٹ کر حال نہ پوچھا جس کے لئے بیمار ہوئے

.....

عظمت گلستاں تھی خطرے میں

 آشیانے کی بات کیا کرتے

شیخ علی حزیں اور جون ایلیا کے رنگ میں ان کی یہ غزل زبان و بیان پر ان کی دسترس کا ثبوت ہے۔

دو بدو کر گئے جادو تننا ھا یاھو

رو برو جب ہوئے ابرو تننا ھا یاھو

 فاختہ عشق کی تو عہد جوانی میں اڑی

 کو بہ کو رہ گئی کو کو تننا ھا یاھو

شعور اعظمی نے امیر خسرو کے رنگ میں فارسی اور ہندوی کے امتزاج کے ساتھ بھی غزل کہی۔

پیام شام وصال آید شنیدہ ام خوش جمال آید

 نہ جانے کب آئے آنے والا میں دیپ دوارے جلائے راکھوں

بطرز خسرو غزل سرایم شعور فکر و ہنر نمایم

ہر ایک مصرع پہ سوچتا ہوں کہ ساکھ کیونکر بچائے راکھوں

شعور اعظمی نے ابھی اپنی غزلوں کو شائع کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ غزلوں کا مجموعہ شائع کرنا ان کی ترجیحات کی فہرست میں سب سے آخر میں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔