اکیسویں صدی امریکی صدی نہیں ہو سکتی... ظفر آغا

روس اور یوکرین جنگ آخر کار کیا شکل لیتی ہے، ابھی کہنا مشکل ہے۔ مگر اس وقت عالمی سیاسی بساط پر امریکہ کو پریشانی کا سامنا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اب دنیا میں محض امریکہ کا ڈنکا نہیں بجتا

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / شٹر اسٹاک</p></div>

علامتی تصویر / شٹر اسٹاک

user

ظفر آغا

دنیا گول ہے۔ جی ہاں، اکثر شور ہوتا ہے کہ دنیا بدل گئی۔ لیکن پھر یہ گول دنیا ویسے ہی نظر آنے لگتی ہے کہ جیسے پہلے کبھی تھی۔ آپ کہیں گے کہ یہ آخر کیا گول مٹول باتیں کر رہے ہیں۔ جناب بات بالکل سیدھی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ساری دنیا میں شور تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی اکیلی سپرپاور ہے اور بس اب دنیا پر امریکہ کی حکمرانی ہوگی۔ حد یہ ہوئی کہ امریکہ کے اہم پالیسی تھنکرز نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ اکیسویں صدی امریکی صدی ہوگی۔ اور تو اور اس وقت صدر جارج بش نے اس پالیسی پر عمل در آمد بھی شروع کر دیا۔ پہلے دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں، پھر جلد ہی عراق میں صدام حسین کو سبق سکھانے کے لیے امریکہ نے عراق پر قبضہ کر لیا۔ واقعی یہ لگنے لگا کہ بس اب تو امریکہ ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ کوئی چوں کر سکے۔

لیکن تاریخ کا اپنا الگ مزاج ہے۔ وہ کسی سپر پاور کے ایک اعلان کے ماتحت نہیں ہوتی۔ اکیسویں صدی کی دو دہائیاں ختم ہوتے ہوتے امریکہ کا اکیلی گلوبل پاور کا خواب ٹوٹنا شروع ہو گیا۔ پہلے امریکی فوجوں کو منھ چرا کر عراق خالی کرنا پڑا، پھر جلد ہی افغانستان سے بھی طالبان نے امریکہ کو کھدیڑ دیا۔ دیکھتے دیکھتے شور مچ گیا کہ بھائی امریکہ بہادر کا وقت گیا۔ بھلے ہی امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور ہو، لیکن اب صاحب بہادر کے دانت ٹوٹ چکے ہیں۔


لیکن عالمی سیاست کے اپنے الگ اصول ہوتے ہیں۔ سیاست میں اگر کوئی کمزور ہوتا ہے اور اس کی جگہ خالی ہوتی ہے تو جلد ہی اس خلا کو پر کرنے کے لیے کوئی دوسرا اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ اور عالمی سیاست میں بھی یہی ہوا۔ ادھر امریکہ کمزور ہوا اور ادھر روس و چین نے انگڑائی لی۔ روس یعنی سابق سوویت یونین کے سربراہ کو امریکہ سے پرانی پرخاش تھی۔ افغانستان میں امریکہ نے سوویت یونین کی فوجوں کو پھانس کر افغان مجاہدین کے ذریعہ سوویت یونین کا آخر خاتمہ ہی کروا دیا تھا۔ زخمی روس اس توہین کا جواب دینے کے موقع کی تلاش میں تھا۔ ادھر اکیسویں صدی شروع ہوتے ہوتے چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ امریکہ جب تک افغانستان اور عراق میں پٹ کر کمزور پڑا تب تک چین کے نئے صدر شی جنپنگ نے اعلان کر دیا کہ اکیسویں صدی اب امریکہ کی نہیں ہماری ہوگی۔ یعنی اب چین نے بحیثیت گلوبل سپرپاور ہونے کا دعویٰ کر دیا۔

ظاہر تھا کہ اب چین اسی حساب سے دنیاوی معاملات میں دلچسپی اور دخل اندازی کرنے لگا۔ اس کے لیے چینی صدر شی جنپنگ نے سب سے پہلے روس کے صدر پوتن کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ملایا۔ دیکھتے دیکھتے روس اور چین کا اتحاد گلوبل معاملوں میں بہت واضح ہو گیا۔ یہ بھی صاف تھا کہ اس نئے گلوبل اتحاد کا مقابلہ امریکہ سے تھا۔

اب روس اور چین کے اتحاد سے امریکہ پریشان ہی نہیں ہوا بلکہ موقع کی تلاش میں لگ گیا کہ اپنے مخالف کو سبق سکھایا جائے۔ سبق سکھانے کے لیے یوکرین نے روس کو آنکھیں دکھانی شروع کیں۔ امریکہ کی پشت پناہی میں یوکرین اس قدر آگے بڑھ گیا کہ آخر سال بھر قبل روس کی فوجیں یوکرین میں داخل ہو گئیں، اور سال بھر بعد ابھی تک جنگ جاری ہے۔ اور اس طرح ایک بار پھر روس اور مغرب کی سرد جنگ دوبارہ سے شروع ہو چکی ہے اور دنیا پھر سے امریکہ اور روس کے خیموں میں بٹ چکی ہے۔


یعنی پھر گول دنیا گھوم کر اپنے محور پر آ چکی ہے۔ روس اور امریکہ ایک سرد جنگ میں سال بھر سے آپس میں آمنے سامنے ہیں۔ امریکہ اس گھات میں ہے کہ ایک بار روس کو یوکرین میں وہی سبق سکھایا جائے جو اس نے مجاہدین کے ذریعہ سوویت یونین کو افغانستان میں دیا تھا۔ لیکن جیسا عرض کیا جا چکا کہ اب بھی دنیا بھلے ہی گول دِکھ رہی ہو مگر اب دنیا بدل بھی چکی ہے۔ اب چین اور روس ساتھ ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، اس جنگ میں ہندوستان بھی پوری طرح امریکہ کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ ابھی تک ہندوستان نے اقوام متحدہ اور اس کے باہر کسی بھی موقع پر روس کے خلاف ووٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ہفتے نئی دہلی میں جو جی-20 کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ہوئی سا میں بھی جو آخر میں بیان جاری ہوا، اس میں یوکرین جنگ کے تعلق سے کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکی اور ہندوستان نے اس سلسلے میں مغرب کی مدد بھی نہیں کی۔

الغرض روس اور یوکرین جنگ آخر کار کیا شکل لیتی ہے، ابھی کہنا مشکل ہے۔ مگر اس وقت عالمی سیاسی بساط پر امریکہ کو پریشانی کا سامنا ہو رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اب دنیا یونی پولر ورلڈ نہیں رہا۔ یعنی اب دنیا میں محض امریکہ کا ڈنکا نہیں بجتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے روس اور چین کھڑے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، تیسری دنیا کے دیگر بہت سے ممالک اس معاملے میں ہندوستان کی طرح غیر جانبدارانہ رویہ اپنا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ امریکہ کے لیے اچھی خبر نہیں۔ یعنی اکیسویں صدی امریکی صدی نہیں ہو سکتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Mar 2023, 10:16 AM