تجزیہ: گمنام مجاہد آزادی، شیر علی خاں آفریدی

شیر علی خاں کی آرزو تھی کہ جب ہندوستان کا تاریخ نویس ملک کی آزادی کے واقعات و حادثات لکھے تو اس میں ان کا نام بھی سرفہرست شہیدان وطن میں لکھا جائے۔ لیکن وہ تاریخ نگاروں کی تنگ نظری کی نذر ہوگئے۔

تجزیہ: گمنام مجاہد آزادی: شیر علی خاں آفریدی
تجزیہ: گمنام مجاہد آزادی: شیر علی خاں آفریدی
user

قومی آواز بیورو

از: ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی امروہوی

عصرحاضر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہر انسان اپنی ذاتی مصروفیات میں برق رفتار مشینوں کی طرح کام کرتا نظر آتا ہے روز بروز نئی نئی ایجادات نے دنیا کو ایسی ایسی مصنوعات سے روشناس کرایا ہے کہ دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں بچا ہے جو انسان کی پکڑ میں نہ ہو یعنی انٹرنیٹ، کیمیکلس، مہلک ہتھیار اور سمندری جنگ کے آلات نے پوری دنیا میں اٹھا پٹک مچا دی ہے، دنیا کی اکثر وبیشتر عوام چل تو رہے ہیں زمین پر لیکن نظر رکھتی ہے آسمانوں پر، اس بھاگ دوڑ بھری زندگی کے درمیان ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کا متلاشی اور اس ضیا کی کرنوں سے مزید نور بھرنے والا، جس نے اپنی زندگی کو گمنام شہیدان وطن کی تاریخ رقم کرنے کے لیے وقف کر دیا، اس قلم کار کو ڈاکٹر محمد شاہد حسنین صدیقی علیگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

موصوف تاریخ نگاری میں ملکہ رکھتے ہیں۔ سنہ2020ء میں طبع ہونے والی ان کی معرکۃ الآرا کتاب ’’غداروں کی کارستانیاں‘‘ کو یوپی اردو اکاڈمی لکھنؤ نے 25000؍ہزار کے انعام سے سرفراز کیا، اس سے قبل ان کی 2013ء میں ’جنگ آزادی کے سرخیل‘ اور 2016ء میں ’جدید شاعری کی مستحکم آواز شہریار‘ کتابیں شائع ہوئیں اور ان کو عوام وخواص میں قبولیت ملی۔


ڈاکٹر شاہد صدیقی کے مضامین اکثر وبیشتر ملک و بیرون ملک کے اخبارات رسائل و جرائد میں طبع ہوتے رہتے ہیں، آن لائن نیوز پورٹل ’دی وائر اور قومی آواز‘ پر بھی آپ کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ تاریخ نگاری میں لکھنے والوں کی قلت ہے اور جو ہیں وہ حقیقت بیانی پر دبیز پردے ڈال کر واقعات وحالات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، جس سے اصل واقعات و حالات کی شکل مسخ ہو جاتی ہے۔ شاید ایسے لوگ یا تو عصبیت کے شکار ہوتے ہیں یا پھر سیاسی دباؤ کے زیر اثر رہتے ہیں۔ البتہ آج کل کے بعض تاریخ داں حقیقت سے پردہ پوشی کرکے بھول بھلیوں کی سیر کراتے ہیں۔

بقول شاعر:

تیرا کرم ہے ہم پہ گناہوں کے بعد بھی ہم جی رہے ہیں کتنی خطاؤں کے بعد بھی

ہم جیسا بد نصیب وطن میں کوئی نہیں مجرم بنے ہوئے ہیں وفاؤں کے بعد بھی (ن۔م)

تاریخ ہند کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے غلامی کے طوق وسلاسل کو اتار پھینکنے کے لیے بے شمار اور لازوال قربانیاں پیش کیں، حتیٰ کہ مادرہند کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جو مدارس کے بوریانشینوں سے لے کرخاص وعام تک کے خون سے لالہ زار نہ ہواہو۔غرض کہ کالا پانی کی سزا پانے والوں میں بھی مسلمان دوسرے ابنائے وطن سے اکثریت میں تھے،مگر وطن عزیز میں پہلے سے ہی ایک ایسے طبقے کا بول بالا قائم رہا ہے،جومسلمانوں کی قربانیوں کو تاریخ ہند کے صفحات سے مٹانے یا ان پر پردہ ڈالنے کے لیے کوشا ں رہتا ہے۔


بقول تاریخ داں پروفیسر عرفان حبیب :’’ہر گزرتے دن کے ساتھ کاغذ، دھاتو، اینٹ اور پتھر پر درج تاریخی نقوش کو مٹایا جا رہا ہے، اگر مٹانے والے ہاتھوں کو روکنا ہے تو ملک کے ماضی میں عوام کی دلچسپی کو بیدار کرنا ہوگا، اس کاوش میں وہ لوگ بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جوکہ ہماری مشتر کہ میراث کے قدر دان ہیں‘‘۔

بہرکیف انڈمان ونکوبار میں بھی مولانا فضل حق خیر آبادی، مولوی عبدالکریم، مولوی علاؤ الدین، مولانا احمد اللہ صادق پوری، مولوی امیرالدین، مولوی لیاقت علی اور مفتی عنایت احمد کاکوروی وغیرہ جیسے مجاہدین نے اپنی مہم جاری و ساری رکھی اور وہ ملک کی سالمیت اور حرمت و آبرو کو قائم ودوائم کی ہر ممکن منصوبہ بندی کرتے رہے، ان دلیر غازیوں کی صحبتوں سے ہی شیر علی خاں آفریدی کا ایسا نظریہ تبدیل ہوا کہ وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر اپنی خفیہ حکمت عملی کو کامیاب بنانے کی تگ ودو میں لگ گیا، اس نے قبول کیا تھا کہ وہ انگریزوں کو اپنا سب سے بڑا حریف مانتا ہے اور اس نے نو آبادیاتی نظام کے کسی اعلیٰ افسر کو اپنا شکار بنانے کا مصمم عزم کیا تھا۔ جس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے شیر علی خاں نے اپنے چاقو کی دھار تیز کی اور 8؍فروری1872ء کو لارڈ میؤ پر وار کرکے قتل کر دیا۔ جس کی پاداش میں انگریز حکومت نے 22؍فروری 1872ء کو ان کو سزائے موت کی سزا سنائی۔

اس جیالے نوجوان نے 11؍مارچ1872ء کو ہنستے ہنستے اپنی جان قربان کردی، لیکن انگریز مؤرخین نے اس واردات کو تاریخ ہند کے صفحات پر درج نہ ہونے دینے کی قسم کھائی تھی، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مابعد آزادی بعض کوتاہ نظر ہندوستانی تاریخ نگاروں نے بھی انگریزوں کی تقلید کی، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ شیر علی خاں کی آرزو تھی کہ جب ہندوستان کا تاریخ نویس ملک کی آزادی کے واقعات و حادثات لکھے تو اس میں ان کا نام بھی سرفہرست شہیدان وطن میں لکھا جائے۔ لیکن وہ تاریخ نگاروں کی تنگ نظری کی نذر ہوگئے۔


آج جب شیر علی خاں کی قربانی کو 150؍سال ہونے جا رہے ہیں اس موقع پر شاہد صدیقی کی نئی کتاب گم نام مجاہد آزادی شیر علی خاں آفریدی منظر عام پر آئی ہے جس میں شیر علی خاں آفریدی کے حالات و واقعات کو پیش کیا ہے۔ موصوف نے شیر علی خاں آفریدی کے معاصرین مجاہدین آزادی اور تاریخ وجغرافیہ جزائر انڈمان ونکوبار کوبڑی عرق ریزی اور ایماندارنہ طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب تشنگان علم کی خواہشات پر کھری اترے گی اور عوام و خواص میں بہ شرف قبولیت ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔