ادب کی متعدد جہتوں کا مسافر عباس رضا نیر جلالپوری

46 برس کی عمر میں نیر جلالپوری کے قلم سے پچاس سے زیادہ کتابوں کی تخلیق، تالیف، اور تدوین ہو چکی ہے۔ ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں کا احاطہ کرنے والی آٹھ کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں۔

عباس رضا نیر جلالپوری
عباس رضا نیر جلالپوری
user

جمال عباس فہمی

کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں ادب کی کسی ایک جہت میں محدود نہیں کی جا سکتا۔ ان کی فکر ادب کے ہر گوشے کو اپنی جولانیوں اور تابانیوں سے منور کرتی ہے۔ وہ ادب کی شاہراوں پر اپنے قدموں کے نشان اس انداز سے ثبت کر دیتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو ان کی روشنی میں اپنی منزل دور سے نظر آجاتی ہے۔ وہ شاعری کرتے ہیں نئے آہنگ اور اشاریت کے ساتھ، تحقیق کرتے ہیں تو نہاں خانوں سے شمس و قمر نکال کر ادب کا دامن منور کر دیتے ہیں۔ تنقید کے میدان میں قلم رنجہ ہوتے ہیں تو نئی راہیں معین کر دیتے ہیں۔ ترجمہ کرتے ہیں تو تخلیق کو اپنا بنا لیتے ہیں۔ تالیف و تدوین کرتے ہیں تو فن پارے وجود میں آتے ہیں۔ تقریر کرتے ہیں تو الفاظ و معنی کا دریا بہا دیتے ہیں۔ نظامت کرتے ہیں تو محفل کو لالہ زار بنا دیتے ہیں۔ لیکن ایسے افراد نایاب ہوتے ہیں۔ عباس رضا نیر جلالپوری ایسے ہی نایاب فرد ہیں۔ عباس رضا نیر جلالپوری کی شخصیت کے متعدد روپ ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں۔ محقق بھی ہیں۔ تنقید نگار بھی ہیں۔ ترجمہ نگار بھی ہیں۔ مرتب و مولف بھی ہیں۔ مقدمہ اور تقریظ نگار بھی ہیں۔ مبصر بھی ہیں۔ ناظم بھی ہیں اور ذاکر و خطیب بھی ہیں۔ اختراعی ذہن کے مالک ہیں اور جدت طراز ہیں۔ اتنی صلاحیتوں کے ساتھ عباس رضا نیر ایک بھلے مانس بھی ہیں۔

عباس رضا نیر جلال پوری کے ادبی کارناموں کا تفصیلی ذکر کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر، تعلیم و تربیت اور ادبی رجحان کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے۔ شمالی ہندوستان  کے ضلع امبیڈ کر نگر کا قصبہ جلال پور علمی اور ادبی شخصیات کا گہوارہ رہا ہے۔ مشاعروں اور منقبتی محفلوں سے یہاں کی فضا معمور رہتی ہے۔ اسی جلال پور کے عزادار حسین کے گھر میں 30 جون 1976 کو عباس رضا نے آنکھیں کھولیں۔ درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ عزادار حسین جلالپور کے ہی مرزا غالب انٹر کالج میں اردو کے استاد تھے۔ جن کا حال ہی میں انتقال ہو چکا ہے۔ عباس رضا کو بچپن سے ہی علمی، ادبی اور عزائی ماحول ملا۔ عباس رضا کے دادا رفیق حسین کربلائی مرثیہ خواں اور اچھے شعری ذوق کے حامل تھے۔ عباس رضا کے نانا مولانا انصار حسین کیف جلالپوری ایک کہنہ مشق اور استاد شاعر تھے۔ انہوں نے جلالپور میں شعرا کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ ایسے ادب پرور اور ادب نواز ماحول میں تربیت پانے والے عباس رضا آسمان شعر و ادب پر نیر تاباں کی طرح نہیں چمکیں گے تو کون چمکے گا۔ مطالعہ کا شوق انہیں بچپن سے رہا۔ اگر انہیں کتابی کیڑا کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ عباس رضا کی ابتدائی تعلیم مقامی مدرسہ جعفریہ میں ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کی للک انہیں لکھنؤ کے جامعہ سلطانیہ تک لے آئی۔ 14 برس کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں انہوں نے صدرلا فاضل کی سند حاصل کرلی۔ لکھنؤ کے ہی مدرستہ الواعظین میں تین سال تک تعلیم حاصل کرکے وہ 'واعظ' بھی ہوگئے۔ مذہبی اور دینی تعلیم کے بعد پڑھائی کے کیڑے نے انہیں عصری تعلیم حاصل کرنے کو مجبور کیا تو انہوں نے شیعہ کالج سے بی اے ایل ایل بی کیا اور لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ 'اردو شاعری میں علامات کربلا‘ کے موضوع پر پروفیسر انیس اشفاق کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ لکھ کر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔


1999 میں محض 23 برس کی عمر میں وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن الہ آباد کے ذریعے اسسٹنٹ پروفیسر منتخب کر لئے گئے تھے۔ سب سے پہلے وہ مراد آباد کے مہاراجہ ہریش چندر پی جی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ فطری صلاحیتوں اور محنت نے ان کے لئے ترقی کے دروازے کھول دیئے۔ 2006 میں لکھنؤ یونیورسٹی کے اردو شعبہ سے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہوئے۔ پھر اسی شعبے میں ریڈر ہوئے اور اس وقت وہ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ ہیں۔ لکھنؤ یونیورسٹی کا یہ وہی شعبہ اردو ہے جس کے سربراہ کی کرسی پر کسی زمانے میں اردو کے معروف ناقد پروفیسر احتشام حسین جلوہ فرما تھے۔ پروفیسر احتشام حسین کی اردو ادب میں تنقیدی خدمات سے دنیا واقف ہے۔ عباس رضا نیر نے بھی تنقید کی راہوں میں نئے چراغ روشن کئے ہیں۔ 'تنقیدی بحثیں' 'رثائی تنقیدیں' اور 'ادبی میزان' جیسی ان کی کتابیں تنقید کے حوالے سے گراں قدر ہیں۔ عباس رضا نیر تنقید کو تخلیق کے پیرایہ میں ڈھالنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ عباس رضا نیر چونکہ تخلیقی ذہن کے مالک ہیں اس لئے خواہ وہ ترجمہ کریں، تنقید کریں، تفہیم کریں، تجزیہ کریں، کسی کتاب کا مقدمہ، تقریظ یا تبصرہ لکھیں یا شاعری کریں ان کی ہر قلمی کاوش میں تخلیقی عنصر جلوہ گر رہتا ہے۔ جہاں تک تحقیق کا معاملہ ہے عباس رضا نیر نے اس راہ میں بھی اپنے نقوش ثبت کئے ہیں۔ خواجہ احمد عباس پر ان کی کتاب ہو یا مولانا انصار حسین عاکف کی 'کلیات عاکف' کی ترتیب و تدوین،' اردو ناول اور اودھ 'ہو یا 'اودھ اور اردو' یہ تخلیقات عباس رضا نیر کی تحقیقی صلاحیتوں کی مظہر ہیں۔ انہوں نے معروف کالم نگار، صحافی، افسانہ نگار، ناول نگار، فلمساز و ہدایت کار خواجہ احمد عباس کی زندگی کے نشیب و فراز اور خاندانی پس منظر کا تفصیل سے ذکر بھی کیا ہے اور ان کے فن کا بھی مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہے۔ عباس رضا نیر کی یہ کتاب خواجہ احمد عباس پر اب تک کی پہلی اور آخری مبسوط کتاب ہے۔ مولانا انصار حسین کیف جلالپوری کی کلیات مرتب کرکے عباس رضا نیر نے کیف جلال پوری کو جلال پور کی حدود سے نکال کر بین الاقوامی پہچان عطا کر دی۔ کیف جلالپوری کے شعری سرمایہ سے اردو شعر و ادب کے دامن کو مالا مال کر دیا۔

عباس رضا نیر کی ترجمہ نگاری کا اگر ذکر نہ کیا جائے تو ان کی شخصیت کا خاکہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ بحیثیت ترجمہ نگار بھی عباس رضا نیر نے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ وہ ادبی اور غیر ادبی دونوں قسم کے ترجمے اس خوبی سے کرتے ہیں کہ ترجمے نہیں بلکہ تخلیق معلوم ہوتے ہیں۔ ادبی نوعیت کے متن کا ترجمہ پھر بھی آسان ہوتا ہے لیکن غیر ادبی متن کا ترجمہ بڑا کٹھن کام ہے۔ آدھار کارڈ کی ویب سائٹ کا اردو ترجمہ خالصتاً غیر ادبی کام ہے، آدھار کارڈ کی ویب سائٹ کا ترجمہ اک سنگ میل اور تاریخی نوعیت اور اہمیت کا کارنامہ ہے۔ جب تک ملک میں آدھار کارڈ بنتے رہیں گے اس وقت تک اردو ویب سائٹ کی صورت میں عباس رضا نیر کا کارنامہ زندہ رہےگا۔ انہوں نے یو پی کے سابق گورنر رام نائک کی سوانح चरैवेति, चरैवेति کا 'چلتے رہو چلتے رہو' کے عنوان سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ نیر نے اس سوانح کا اس خوبی سے ترجمہ کیا ہے کہ پڑھنے میں نہیں لگتا کہ سوانح ہے یا ناول ہے۔ عباس رضا نیر نے گجراتی کی مقبول مصنفہ کندنیکا کاپڑیا کے معروف ناول 'ست پگلاں آ کاش ماں' کا 'سات قدم آسمان میں' کے زیر عنوان ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ نیر کے ترجمے کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کی طبع زاد تخلیق ہے۔ نیر نے ہندی کے معروف ادیب آچاریہ رام چندر شکل پر رام چندر تیواری کی ہندی میں کتاب کو اردو کا قالب عطا کیا۔


عباس رضا نیر محقق، تنقید نگار اور مترجم بننے سے بہت پہلے ایک خوش فکر، زود گو اور جدید لہجے کے شاعر، بہترین ناظم اور جادو بیان خطیب کے طور پر شناخت قائم کرچکے تھے۔ ان کی منقبی اور مدحیہ شاعری ایک خاص اسلوب اور جدت رکھتی ہے۔ پروفیسر سید مجاور حسین کے خیال میں 'نیر لائحہ حیات مرتب کرنے والا درد مند شاعر ہے' عباس رضا نیر نے غزل، نظم، سلام، منقبت، نوحہ، مسدس اور مرثیہ جیسی اصناف میں طبیعت کی روانی کو آزمایا ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں کربلائی استعارات، تلمیحات اور متعلقات سے مزین ہیں۔ کربلا نیر کے وجود سے لیکر تحت الشعور تک میں رچی بسی ہے۔ ان کے کچھ اشعار تو ایسے ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ غزل کے ہیں یا سلام و منقبت کے۔ مثال کے طور پر

 پرکھا جاتا ہے ہمیں شمع بجھا کر نیر

خواہش سلطنت کوفہ و رے کچھ بھی نہیں

.....

خنجروں کے ہجوم میں نیر

 کربلا راستہ دکھائے گی

 عباس رضا نیر کا سب سے عظیم شعری کارنامہ 'الہام' ہے۔ یہ مسدس کی ہیئت میں مولا علیؑ کی مدح سرائی ہے۔ اس مسدس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں خطیب منبر سلونی کے خطبات کو منظوم کیا گیا ہے۔ مولا علی نے اکثر موقعوں پر فی البدیہہ ایسے خطبات ارشاد فرمائے کہ جن میں کوئی نقطہ نہیں تھا۔ کچھ خطبات بے الف کے بھی ہیں جو مولائے معجز بیان نے ارشاد فرمائے۔ عباس رضا نیر نے بھی یہ کمال کیا ہے کہ بے نقط خطبے کو بے نقط ہی منظوم کیا ہے اور بغیر الف والے خطبہ کو الف کا استعمال کئے بغیر نظم کیا ہے۔ اس کے علاوہ نیر نے ایسے بند بھی نظم کئے جن میں ان حروف کا استعمال ہے جن کے نقطے اوپر ہیں۔ کچھ بند ایسے ہیں جنمیں ان حروف کا استعمال کیا گیا ہے، جن کے نقطے نیچے ہوتے ہیں۔ اوپر کے نقطوں والے حروف کے استعمال کا نمونہ۔

تھا خشک تخم عشق اگا لہلہا اٹھا

صحن شعور و عقل و خرد کنمنا اٹھا

 دشت ترنگ و رنگ و رمق سنسنا اٹھا

روشن ہوا زمانہ شفق تمتما اٹھا

احمد کو خانہ زاد ملا کردگار کا

ہونا تھا سرفراز علم ذولفقار کا


نیچے کے نقطوں والے حروف کا استعمال۔

آئی سحر جو باد بہاری لئے ہوئے

اک ملگجے اجالے کی دھاری لئے ہوئے

بلبل کے راگ پھولوں کی کیاری لئے ہوئے

سلمائے گل ادا کی عماری لئے ہوئے

ہر سو گلاب کھل اٹھے باد صبا چلی

بالیدہ روح ہو گئی ایسی ہوا چلی

عباس رضانیر کے اس منظوم شاہکار کو الہام کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ اگر عباس رضا نیر تحقیق، تنقید، ترجمہ کے شعبے میں کوئی کارنامہ انجام نہ بھی دیتے تب بھی مسدس 'الہام' ان کو اردو ادب میں زندہ جاوید بنانے کے لئے کافی ہے۔

46 برس کی عمر میں نیر جلالپوری کے قلم سے پچاس سے زیادہ کتابوں کی تخلیق، تالیف، اور تدوین ہو چکی ہے۔ ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں کا احاطہ کرنے والی آٹھ کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں۔ درجنوں انعامات اور اعزازات سے انہیں نوازہ جا چکا ہے۔ سیکڑوں کتابوں کے مقدمے، تقریظیں اور تبصرے لکھ چکے ہیں۔ درجنوں اسکالرز ان کی نگرانی میں مختلف موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جلال پور کے اس نیر کی تابانی سے جہان ادب منور ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔