اپنے حصے کا زہر پینے والا قلمکار، سلام بن رزاق
سلام بن رزاق کے درجنوں افسانوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ مختلف ریاستی اکیڈمیاں ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرکے انہیں ایوارڈ اور اعزازات سے نواز چکی ہیں۔
اردو قلمکاروں کے ہجوم میں کچھ قلمکار اپنے ادبی قد کی وجہ سے ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ سلام بن رزاق ایک ایسے قلمکار ہیں جو کئی حیثیتوں سے اردو ادب میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔ وہ ایک فکشن نگار، بچوں کے قلمکار، ترجمہ نگار اور فلم اور سیرئل رائٹر ہیں۔ اردو ادب میں ان کی درازی قد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے سب سے اعلیٰ ادبی اعزاز 'ساہتیہ اکادمی ایوارڈ' سے انہیں دو مرتبہ نوازہ جا چکا ہے۔ ادب تخلیق کرنے اور ترجمہ نگاری کے لئے انہیں ساہتیہ اکادمی اپنے باوقار انعامات سے نواز چکی ہے۔ سلام بن رزاق جس روانی سے اردو میں ادب تخلیق کرتے ہیں اتنی ہی خوش اسلوبی سے ہندی میں بھی لکھتے ہیں۔ جس مہارت کے ساتھ وہ ہندی ادب کو اردو کا قالب عطا کرتے ہیں اتنی ہی عالمانہ مہارت کے ساتھ مراٹھی ادب کو بھی اردو کا لباس پہنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : گاندھی جی کے عقیدت مند تھے رئیس امروہوی
سلام بن رزاق کی پیدائش 15 نومبر 1941 کو مہاراشٹر میں پنویل میں ہوئی۔ وہ درس و تدریس کے مقدس پیشے سے 35 برس تک وابستہ رہے۔ 1999 میںBMC کے ایک اسکول سے پرنسپل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ سلام بن رزاق ماں کی شفقت سے اسی وقت محروم ہو گئے تھے جب ان کی عمر چھ یا سات برس کی تھی۔ ان کی پرورش ان کی پھوپی نے کی۔ سلام بن رزاق کا بچپن غربت اور محرومی میں گزرا۔ ادب کا ماحول انہیں گھر پر تو نصیب نہ ہوسکا لیکن لائبریری میں اردو، ہندی اور مراٹھی کے ادیبوں کی کتابیں پڑھ پڑھ کر ان کے اندر ادبی ذوق پروان چڑھا۔ سلام بن رزاق کا ادبی رجحان پہلے شاعری کی جانب تھا۔ اسکولی دنوں میں ہی وہ مصرعے موزوں کرنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنی اور ہم جماعتوں کی جانب سے منظوم معافی نامہ اپنے ہیڈ ماسٹرکو لکھ کر دیا تھا۔ انہوں نے غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ لیکن داستانیں اور تاریخی اور جاسوسی ناول پڑھتے پڑھتے کب انہیں نثر لکھنے کا سلیقہ آگیا انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوا۔ انہوں نے محرم کی مجلسوں اور وعظ کی محفلوں کے لئے مرثیے بھی لکھے۔
ان کی شاعری کے یہ نمونے دیکھئے اور قادر الکلامی کی داد دیجئے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں اس دور کے موقر اخبارات اور معیاری رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔
اے موت ٹھہر جا ذرا وہ آتے ہیں شاید
میں نے ابھی پا زیب کی جھنکار سنی ہے
.....
ہر تمنا کا گلا گھونٹ دیا ہے میں نے
اپنی ہر خواہش معصوم کا قاتل ہوں میں
ہاتھ آلودہ ہیں آپ اپنے لہو سے میرے
داغ دامن کے نمایاں ہیں ستاروں کی طرح
میں گنہگار ہوں قاتل ہوں اذیت رس ہوں
کون دیکھے مگر اس جرم و گنہ کے پیچھے
کون سی تلخ حقیقت ہے برہنہ اندام
میری ہر خواہش معصوم کا قاتل ہے کون
سلام بن رزاق نے پہلا افسانہ 1962 میں 'رین کوٹ' لکھا جو اس دور کے نہایت معتبر ادبی جریدے 'شاعر' میں شائع ہوا۔ سلام بن رزاق کی زندگی میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی خلش اور صدمہ نے ان کا کبھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ بچپن میں ماں کی موت اور ابتدائے جوانی میں اولین عشق میں ناکامی کے صدمے کو وہ کبھی بھلا نہیں پائے۔ افسانہ نگاری میں قدم رنجہ ہونے کے بعد شاعری کی جانب سے ان کی توجہ ہمیشہ کے لئے ہٹ گئی۔ علاقے میں اردو میڈیم اسکول نہیں ہونے کے سبب انہوں نے مراٹھی میڈیم اسکول میں داخلہ لے لیا تھا۔ ایک واقعہ نے انہیں ترجمہ نگاری کے میدان میں داخل کر دیا۔ نویں جماعت کے نصاب میں معروف مراٹھی ادیب وی سی کھانڈیکر کی کہانی مائی (ماں) شامل تھی۔ اس کہانی میں انہیں اپنی ماں کی جھلک نظر آئی اور انہوں نے اس کا اردو میں ترجمہ کر دیا۔ یہ ترجمہ روز نامہ انقلاب میں شائع ہوا۔ اس طرح سلام بن رزاق مراٹھی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی راہ پر چل پڑے۔ انہوں نے ہندی اور مراٹھی کی بہت سی کہانیوں کو اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ہندی کی عصری کہانیوں کے ان کے ترجمے کے مجموعے کو 1998 ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازہ گیا۔ 'شکستہ بتوں کے درمیان'۔ یہ ان کے تحریر کردہ منتخب افسانوں کامجموعہ ہے، جسے ساہتیہ اکادمی نے 2004 میں انعام کا مستحق قرار دیا۔
سلام بن رزاق نے تنقیدی مضامین، تبصرے، ڈرامے، ریڈیو فیچر، فیچر فلمیں، بچوں کی کہانیاں لکھیں اور ترجمے بھی کئے لیکن ان کی حقیقی پہچان ایک ایسے افسانہ نگار کے طور پر ہے جس کا اسلوب بیانیہ ہے۔ جو معاشرے کے گھناؤنے چہرے سے بہت اچھی طرح آشنا ہے اور جو نہایت دیانت داری سے معاشرے کی سچائی کو بیان کر دیتا ہے۔ اس کا لہجہ بے باک ہے لیکن اس میں ہلکا پن نہیں ہے۔ بات کو پر پیچ طریقے سے نہیں بلکہ سادہ اور شستہ انداز میں کہنے پر قدرت رکھتا ہے۔ وہ دکھ درد کے ماروں کی یاس اور محرومی کا ترجمان ہے۔ معاشرے کے دبے کچلے لوگوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
معروف فکشن نگار اور ناقد ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کے خیال میں ''سلام بن رزاق کا شمار جدیدیت کے بعد ابھر نے والی نسل کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ سلام بن رزاق کے افسانے زمین کی طرف واپسی، بیانیہ کی واپسی اور کرداروں کی واپسی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ نئے مسائل، نیا سماج اور افسانے کی نئی ڈگر نے اردو افسانے کو قاری سے جو ڑنے کا مشکل کام کیا۔ سلام بن رزاق کے افسانے نئی نسل کی بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ 'انجام کار'، 'اکلویہ کا انگوٹھا'۔ ’شکستہ بتوں کی درمیاں‘، 'ننگی دوپہر کا سپاہی'، وغیرہ ان کے یادگار افسانے ہیں۔''
صاحب طرزفکشن نگار صغرا مہدی کے خیال میں ''بیسویں صدی کے ساتویں اور نویں دہے میں جو قابل ذکر افسانہ نگار اردو ادب میں نمایاں ہوئے ان میں سلام بن رزاق کا نام ممتاز ہے''
خود اپنی افسانہ نگاری پر سلام بن رزاق کی رائے یہ ہے کہ ''ہمارے ارد گرد چپے چپے پر اتنا زہر پھیلا ہے کہ منٹو تو کیا خود شنکر بھگوان بھی زمین پر آجائیں تو تنہا اس زہر کو نہیں پی سکتے۔ لہٰزا معاشرے کا یہ زہر تھوڑا تھوڑا ہم سب کو پینا ہوگا۔ یہ ہمارے لئے چیلنج بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی۔ ایک قلم کار کی حیثیت سے میرے سامنے بھی یہ چیلنج موجود ہے۔ لہٰزا میں افسانے کیا لکھتا ہوں در اصل اپنے حصے کا زہر پی کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کی کوشش کرتا ہوں''۔
'افسانہ ''زندگی افسانہ نہیں' کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے اور محاوروں سے مسجع ان کی تحریر کا لطف لیجئے۔
''جمیلہ دیکھ رہی تھی کہ اس کی ماں میں اب کچھ بچا نہیں تھا۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑوں کے نیچے بس مٹھی بھر ہڈیوں پر سوکھی روکھی چمڑی مڑھی ہوئی تھی۔ آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں اور گال پچک گئے تھے۔ ماں پوری طرح نچڑ گئی تھی پھر بھی اس کا باپ اسے برابر نچوڑے جا رہا تھا۔ وہ سوچتی کیا وہ ماں کو آخری قطرے تک نچوڑ کر ہی دم لیں گے۔ کبھی کبھی اس کے جی میں آتا کہ بزرگی کا لحاظ کئے بغیر وہ باپ کو ایسی کھری کھری سنائے کہ ظاہر پرستی کا وہ لبادہ جو انہوں نے اوڑھ رکھا ہے تار تار ہو جائے۔ مگر وہ صرف خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی۔''
سلام بن رزاق نے متعدد ادیبوں اور شعرا پر مضامین بھی لکھے ہیں۔ غالب، غیاث احمد گدی، عصمت چغتائی، باقر مہدی، علی سردار جعفری، راجندر سنگھ بیدی اور ساگر سرحدی پر ان کے مضامین اپنی مثال آپ ہیں۔ 'غالب کے حضور میں' ان کے مضمون کا ایک اقتباس پڑھئے اور غالب کے شوخ انداز کا سلام بن رزاق کے لہجے میں لطف لیجئے اور سلام بن رزاق کی غالب بینی کی داد دیجئے۔
''جس طرح فریضۂ حج کے لیے کعبہ کے طواف کے ساتھ سنگ اسود کو بوسا لینا سنت ہے۔ اسی طرح چمنستان غالبؔ کی سیر کئے بغیر اردو ادب کا ہفت خواں طے نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کو قدرے تمثیلی پیرائے میں یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اردو ادب ایک دیو ہے جس کی جان غالبؔ کی شاعری میں قید ہے۔ غالبؔ کی شاعری کا دائرہ اثر اس قدر وسیع ہے کہ ان کے بعد کے ہر بڑے شاعر پر اس کے اثرات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ غالبؔ کی شاعری میں اردو شاعری کا سارا جوہر سمٹ آیا ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اگر غزل اردو شاعری کی آبرو ہے تو غالبؔ کی شاعری اردو غزل کی آبرو ہے۔ اردو کے شعراء تو خیر غالبؔ کے آستانے پر جبہ سائی کئے بغیر اپنے ادبی سفر کا آغاز کر ہی نہیں سکتے۔ تاہم اردو کے ادیب اور نثر نگار بھی غالبؔ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کئے بغیر ادب کی سرحد میں داخل نہیں ہوسکتے۔''
یہ بھی پڑھیں : ’میں روزے سے ہوں‘... سہیل انجم
سلام بن رزاق کے درجنوں افسانوں کا ہندی، مراٹھی، پنجابی اور تیلگو کے علاوہ انگریزی، ازبیک، جرمن، نارویجی اور روسی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ مختلف ریاستی اکیڈمیاں ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرکے انہیں ایوارڈ اور اعزازات سے نواز چکی ہیں۔ سلام بن رزاق 82 برس کی عمر میں جواں مردی کے ساتھ قرطاس کی کشت میں قلم کا ہل چلا رہے ہیں۔ الفاظ و معنیٰ کی کاشت کر رہے ہیں اور مقبولیت کی فصل کاٹ رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔